جی ڈی پی کے تعلق سے بری خبر، مہنگائی میں اضافے کے آثار

تعمیر و تخلیق میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، ساتھ ہی اناج کی پیداوار میں بھی گراوٹ درج کی گئی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تسلیم خان

جی ڈی پی کے اعداد و شمار مودی حکومت کے لئے اچھی خبر ہو سکتے ہیں لیکن ملک کے لئے یہ زیادہ اچھی خبر نہیں ہے کیوں کہ ان شعبوں کی ترقی کی شرح میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے جن سے روزگار پیدا ہوتے ہیں۔

ملک کی اقتصادی صحت میں نصف فیصد سے کچھ زیادہ کی بہتری ہوئی ہے۔ لیکن جسے مودی حکومت خود کے لئے اچھی خبر مان رہی ہے، وہ ملک کے لئے اتنی اچھی خبر نہیں ہے کیوں کہ ان شعبوں کی شرح ترقی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا جن سے روز گار پیدا ہوتے ہیں ساتھ ہی کھیتی کے لئے بھی بری خبر ہے کیوں کہ شعبہ زراعت کی شرح ترقی بھی گر گئی ہے۔

ملک کی جی ڈی پی میں گزشتہ پانچ سہ ماہیوں سے چلی آ رہی گراوٹ کا سلسلہ ٹوٹا ہے اور معیشت کی جی ڈی پی کے اعداد و شمار اپنے تین سال کی نچلی سطح سے بڑھ کر 6.3 فیصد پر پہنچی ہے۔ مرکزی اسٹیٹکس تنظیم کے ٹی سی اے اننت کمار نے بتایا ’’ دوسری سہ ماہی میں جی ڈی پی میں 6.3 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ جو کہ گزشتہ سال اسی سہ ماہی میں 7.5 فیصد تھی۔ ‘‘

انہوں نے کہا ’’ یہ اضافہ کچھ شعبوں میں بہتری کی بدولت درج ہوا ہے۔ اس میں تعمیرکا شعبہ جس میں 7 فیصد کی ترقی ہوئی، بجلی ، گیس اور واٹر سپلائی میں 7.6 فیصد کا اضافہ بھی شامل ہے۔ علاوہ ازیں جن دوسرے شعبوں میں بہتر کارکردگی سامنے آئی وہ ہوٹل، تجارت، نقل و حمل اور کمیونی کیشن ہیں۔ ‘‘

لیکن ان اعداد و شمار کو غور سے دیکھیں تو صاف ظاہر ہوتا ہےکہ ملک کی معیشت اب بھی جدوجہد کے دور سے گزر رہی ہے۔ گزشتہ سال کے منیوفیکچرنگ اور کنسٹرکشن یعنی تعمیر و تخلیق کے اعداد و شمار دیکھیں تو ان میں نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بعد کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ ایسے حالات میں اقتصادی صورت حال کی کارکردگی اس بات پر منحصر ہوگی کہ جب تک بنیادی دقتوں کو دور نہیں کیا جاتا بہتری ہونا مشکل ہے۔

بنیادی دقتوں میں کمزور سرمایہ کاری، بنیادی ڈھانچے کی فرموں اور بینکوں پر بنا ہوا دباؤ شامل ہے جو فی الحال کم نہیں ہوا ہے۔ بھلے ہی اس محاذ پر جولائی-ستمبر سہ ماہی میں نئی سرمایہ کاری ہوئی ہو لیکن اس میں اب بھی گراوٹ کا رخ برقرار ہے۔ گزشتہ سال اس محاذ پر 29.4 فیصد کی نئی سرمایہ کاری ہوئی تھی جو اس سال 28.9 فیصد ہے۔

اس میں جلد بہتری کی امید بھی کم ہے کیوں کہ حکومت کے ہاتھ پوری طرح بندھے ہوئے نظر آرہے ہیں کیوں کہ حکومت اکتوبر کے اختتام تک سالانہ بجٹ تخمینوں کے خسارے کے 96.1 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ایسے میں کسی بھی نئی سرمایہ کاری یا سرکاری خرچ کی گنجائش تقریباً ختم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ رواں مالی سال کی ابھی پوری ایک سہ ماہی باقی ہے۔

ان سب کا اثر یہ ہوگا کہ نوکریاں جانے، بے روزگاری بڑھنے، عام استعمال کی چیزوں کے داموں میں تیزی کا چلن جاری رہے گا۔ ایسے میں فسکل کسولیڈیشن یعنی مالی نظام میں بہتری کے اپنے وعدے پر وزیر خزانہ ارون جیٹلی قائم رہتے ہیں تو آنے والے دنوں میں کسی نئی سرمایہ کاری کی امید کم ہی ہے۔

اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں کھانے پینے کی اشیا ءکے دام میں مزید بڑھنے کا امکان مضبوط ہو گیا ہے کیوں کہ شعبہ زراعت میں شرح ترقی گری ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اناج کی پیداوار کی شرح میں 2.8 فیصد کی کمی درج کی گئی ہے۔

شرح ترقی پر نتیجہ اخذ کر نےسے قبل 3-4 سہ ماہیوں کا انتظار کریں۔ چدمبرم

جی ڈی پی کے اعداد و شمار پر سابق مرکزی وزیر خزانہ پی چدمبرم نے کہا کہ وہ اس بات سے خوش ہیں کہ معیشت نے موجودہ سہ ماہی میں 6.3 فیصد کی شرح ترقی حاصل کی ہے لیکن ابھی یہ کہنا جلد بازی ہوگا کہ یہ شرح ترقی میں اضافے کو واضح کرتا ہے۔ اس کے لئے ابھی 3-4 سہ ماہیوں کا انتظام کرنا چاہئے۔

ایک دیگر ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ 6.3 فیصد مودی حکومت کے کئے گئے وعدوں سے کافی کم ہے اور یہ اچھی ہندوستانی معیشت کی صلاحیت سے بھی کہیں زیادہ کم ہے۔

انہوں نے کہا ’’ لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شرح ترقی میں تیزی کے رخ کو ظاہر کرتا ہے۔ ہمیں ابھی کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے قبل 3-4 سہ ماہیوں کا انتظار کرنا چاہئے۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیکمشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔