تنقید برداشت نہ کرنے کی وجہ سے پالیسی سازی میں ہو سکتی ہیں غلطیاں: رگھو رام راجن

آر بی آئی کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے کہا ہے کہ اندرونی اور عوامی تنقید کے تئیں عدم برداشت کی وجہ سے پالیسی سازی میں غلطیاں ہو سکتی ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

جمہوریت میں حزب اختلاف کا مضبوط ہونا اور ذرائع ابلاغ کا آزاد ہونا اس لئے ضروری ہے تاکہ حکومت اگر کوئی غلطی کرے تو تنقید کے ذریعہ اس غلطی کو ہونے سے روکا جا سکے یا اس کو ٹھیک کیا جا سکے، اگر ان دونوں کا فقدان ہوگا تو اس کا سیدھا اثر جمہوریت پر پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آر بی آئی کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے کہا ہے کہ عوامی اور اندرونی تنقید کو برداشت نہ کرنے کی وجہ سے حکومت سے پالیسی سازی میں غلطیاں ہو سکتی ہیں۔

رگھو رام راجن نے کہا ہے کہ ’’اگر ہر تنقید کرنے والے کے پاس حکومت کے کسی نمائندہ کا فون جائے گا اور اس سے پیچھے ہٹنے کے لئے دباؤ بنایا جائے گا یا پھر حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے ٹرولر کی فوج اس کو نشانہ بنائیں گے تو پھر اس شخص کو اپنی تنقید کم تو کرنی پڑے گی۔ اس کے بعد حکمراں جماعت کو اس وقت تک کے لئے اپنی مرضی کا سازگار ماحول مل جائے گا، جب تک وہ تلخ حقیقت سامنے آکر کھڑی نہیں ہو جائے گی‘‘۔ رگھو رام راجن نے یہ بھی کہا کہ تاریخی حصولیابیوں کا ذکر کر نے اور باہری خیالات کی مخالفت کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پالیسی ساز بہت زیادہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔


واضح رہے حال ہی میں حکومت نے وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کاؤنسل کا تشکیل نو کیا ہے جس میں ان دو افراد کو ہٹا دیا گیا ہے جو حکومت کی پالیسیوں کی تنقید کر رہے تھے۔ رگھو رام راجن نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ عوامی تنقید افسران کو اپنے سیاسی آقاؤں کے سامنے حقیقت سے آگاہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے، لیکن اس ماحول میں افسران بھی خاموش ہیں۔

رگھو رام راجن نے لکھا ہے کہ تاریخ کو سمجھنا بہت اچھی بات ہے لیکن اسے اپنا سینہ ٹھوکنے کے لئے استعمال کرنا عدم تحفط کی جانب اشارہ کرتا ہے اور کئی حالات میں اس کے منفی اثرات بھی پڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حصولیابیوں کی وجہ سے موجودہ حالات سے توجہ نہیں ہٹنی چاہیے۔ انہوں نے موجودہ اقتصادی حالات پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ موجودہ حالات کو سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 30 Sep 2019, 12:10 PM