بجٹ میں تعلیم کے شعبے کو نظر انداز کیا گیا...سراج نقوی

تعلیم کے شعبے کے تعلق سے بجٹ میں جو رویہ اپنایا گیا ہے وہ مایوس کن ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت اس شعبے کے فروغ کو لے کر کوئی بڑا قدم اٹھانے سے کسی نہ کسی سبب سے گریزاں ہے

<div class="paragraphs"><p>عام بجٹ 2024 پیش کرتی ہوئیں وزیر خزانہ نرملا سیتارمن / یو این آئی</p></div>

عام بجٹ 2024 پیش کرتی ہوئیں وزیر خزانہ نرملا سیتارمن / یو این آئی

user

سراج نقوی

وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے گزشتہ منگل کو جو بجٹ پیش کیا اس میں این ڈی اے میں شامل پارٹیوں کو خوش رکھنے کی تو بھرپور کوشش کی گئی ہے اور بہار و آندھرا پردیش کو کافی کچھ دیا گیا ہے لیکن اپوزیشن کی حکومت والی ریاستوں کو بڑی حد تک نظر انداز ہی کیا گیا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں اس ’ناانصافی‘ پر بجا طور پر چراغ پا بھی ہیں لیکن حکومت پر اس تعلق سے لگے جانبداری کے الزامات کو اگر نظر انداز بھی کر دیں تب بھی ایک شعبہ ایسا ہے کہ جس کو مودی حکومت کی وزیر خزانہ نے ایک مرتبہ پھر نظر انداز کیا ہے۔ یہ شعبہ تعلیم کا شعبہ ہے جس کے بجٹ کو کم کیا گیا ہے اور اس طرح ملک کے مستقبل سے بالواسطہ کھلواڑ کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ تازہ بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لیے مختص رقم میں گزشتہ برس کے مقابلے میں کمی گئی ہے۔ یہ تخفیف تقریباً 9 ہزار کروڑ روپئے ہے۔ اس تخفیف کے پس پشت کیا اسباب رہے اس پر تو حکومت ہی روشنی ڈال سکتی ہے۔ البتہ اس کا واضح پیغام یہ ہے کہ ہمارے حکمراں نہیں چاہتے کہ نئی نسل تعلیم یافتہ ہو۔ ممکن ہے اس کے پس پشت یہ خوف کارفرما ہو کہ جب تعلیم کا معیار بڑھے گا تو پھر لوگوں کو ’اندھ بھکت‘ بنانا آسان نہ ہوگا۔ بہرحال تعلیم کے تعلق سے مودی سرکار کا ریکارڈ 2014 سے ہی خراب رہا ہے۔ تعلیم کے شعبے کی ترقی پر مودی حکومت میں کبھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔

حالانکہ 2014 میں جب مودی نے اقتدار سنبھالا تھا تو وعدہ کیا گیا تھا کہ تعلیم کے شعبے میں بجٹ کو بڑھا کر جی ڈی پی کا 6 فیصد کیا جائے گا۔ اس سے قبل کانگریس اقتدار والی مرکزی سرکار کے دس سال کے دور اقتدار میں یہ بجٹ جی ڈی پی کا تقریباً 0.61 فیصد تھا لیکن مودی سرکار آنے کے بعد اس میں تخفیف کرتے ہوئے اسے جی ڈی پی کا 0.44 فیصد کر دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ تعلیم کے شعبے کو نجی سیکٹر میں دینے کی حکومت کی پالیسی نے بھی غریب کے لیے حصول تعلیم کو مزید مشکل بنا دیا۔ جبکہ منموہن سرکار نے تعلیم کو بنیادی حقوق میں شامل کرنے کا کام کیا تھا۔ پبلک سیکٹر کے تعلیمی اداروں کی نجکاری سے تعلیم کو کتنا نقصان یہ ایک الگ بحث کا موضوع ہے۔ البتہ یہ سچ ہے کہ اس دوران سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار میں گراوٹ آئی۔ حالانکہ حکومت نے سرکاری تعلیمی اداروں میں مالی اعتبار سے پسماندہ طبقات کے بچوں کو دس فیصدی ریزرویشن دینے کا اعلان بھی کیا لیکن ان تعلیمی اداروں کو بھی مناسب فنڈ حکومت نے مہیّا نہیں کرائے۔ اس طرح کی پالیسیوں کے نتیجے میں اسکول چھوڑنے والے طلباء کے فیصد میں بھی اضافہ ہوا۔ مذہبی اقلیتوں کو تعلیم کے میدان میں آگے لانا تو درکنار مسلم طلباء کے لیے کافی پہلے سے جاری مولانا آزاد تعلیمی وظائف کو بھی ختم کر دیا گیا۔


اگر مودی حکومت کے 2014 سے اب تک کے تعلیمی بجٹ پر نگاہ ڈالیں تو اس کے مطابق پہلے سال میں اس مد پر 68728 کروڑ، 2015 میں 0.34 فیصد اضافے کے ساتھ 68968 کروڑ، 2016 میں 4.9 فیصد کے اچھے اضافے کے ساتھ 72394 کروڑ روپے اور 2017 میں 9.9 کے کافی اچھے اضافے کے ساتھ 79685.95 کروڑ روپے کیا گیا لیکن اگلے سال یعنی 2018 کے بجٹ میں اس شعبے میں صرف 3.8 فیصد کا اضافہ کیا گیا۔ اس کے بعد کے برسوں میں بھی تعلیم کے بجٹ میں اضافہ تو کیا گیا لیکن عصری ضرورتوں کے مطابق فنڈ مہیا نہیں کرائے گئے۔ البتہ گزشتہ برس کے بجٹ میں تعلیم کے شعبے میں 13 فیصد کا خاطر خواہ اضافہ کیا گیا تھا لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ اس کے باوجود نظام تعلیم کے کئی شعبوں کو پرائیویٹ اداروں یا کمپنیوں کے سپرد کرنے کے نتیجے میں اس کے معیار میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں مختلف امتحانات میں نقل سمیت دیگر بدعنوانیوں کے جو واقعات ہوئے ہیں انھیں روکنے میں حکومت ناکام ہوئی۔ گجرات کی ایک ایسی کمپنی کو اعلیٰ امتحانات کے انعقاد کے ٹھیکے دیے جا رہے ہیں کہ جس پر بدعنوانی کرانے کے بڑے الزامات ہیں لیکن مودی کے قریبی ہونے کے سبب اس کے مالکان کسی سخت کارروائی سے بچے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال نے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو خاص طور پر کمزور کیا ہے۔ ان حالات میں تعلیم کے بجٹ میں 9 ہزار کروڑ روپے کی کمی حیران کن ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کی توجہ اس شعبے میں کم ہو رہی ہے۔

بہرحال جیسا کہ کہا گیا کہ زیر بحث بجٹ میں تعلیم کے شعبے پر خرچ کو کم کیا گیا ہے۔ اس کی کوئی وجہ بھی حکومت نے بیان نہیں کی ہے۔ سب سے زیادہ یعنی تقریباً 60 فیصد کی تخفیف یو جی سی کی مدد میں کی گئی ہے۔ اسی طرح مسلسل دوسرے سال آئی آئی ایم اداروں کے بجٹ میں بھی کمی کی گئی ہے۔ اس کمی کے نتیجے میں مرکزی حکومت کے تحت آنے والی یونیورسٹیوں پر خاص طور پر اثر پڑے گا۔ اے ایم یو اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ایسی ہی یونیورسٹیاں ہیں۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ اس بجٹ میں اپوزیشن پارٹیوں خصوصاً کانگریس کے منشور کے کئی اعلانات کو شامل کیا گیا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت کانگریس کے منشور میں کئے گئے وعدوں پر کسی نہ کسی سبب سے عمل کے لیے مجبور ہوئی ہے۔ روزگار میں اضافے کے تعلق سے جو بجٹ تجاویز اس بجٹ میں ہیں ان کو معمولی ترمیم کے ساتھ شامل کرنا بی جے پی مجبوریاں بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ شاید اسی لیے اپوزیشن لیڈر اور کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے اس بجٹ کو ’کانگریس منشور اور گزشتہ بجٹوں کا کاپی پیسٹ کیا گیا بجٹ‘ قرار دیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر نے اسے ’کرسی بچاؤ‘ بجٹ بھی کہا ہے۔ کانگریس کے سینیئر لیڈر پی چدمبرم نے کانگریس کے منشور کی کچھ باتوں کو بجٹ میں شامل کرنے پر خوشی تو ظاہر کی لیکن دیگر کئی ہم موضوعات خصوصاً نیٹ نظام کو ختم کرنے کے لئے بھی حکومت پر زور دیا۔ چدمبرم نے یہ کہہ کر کانگریس منشور کی اہمیت کو بھی واضح کیا، ”خوشی کی بات ہے کہ وزیر خزانہ نے کانگریس کا منشور پڑھا۔“ جبکہ ترنمول کانگریس کی لیڈر اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اس بجٹ کو ’آندھرا بہرا بجٹ’ کہہ کر اس پر تنقید کی۔


ظاہر ہے یہ اس لیے کہا گیا کہ بجٹ میں حکومت نے اپنی دو اہم حلیف پارٹیوں جے ڈی (یو) بہار اور تلگو دیسم پارٹی (آندھرا پردیش) کے دباؤ میں ان ریاستوں کو کافی کچھ دیا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حکومت کچھ معاملوں میں بہرحال اپنے حلیفوں کے دباؤ میں ہے لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بجٹ میں کی گئی اس کوشش کو اپوزیشن کے اقتدار والی ریاستوں کے ساتھ ناانصافی اور تفریق کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ تلنگانہ اسمبلی کے ذریعہ مرکزی بجٹ کے خلاف اتفاق رائے سے تجویز پاس کرنا اور تلنگانہ کو انصاف دلانے کی اپیل اس کا ثبوت ہے۔ بی آر ایس اور اسد الدین اویسی کی ایم آئی ایم کا اس ایشو پر حکومت کے ساتھ کھڑا ہونا دلچسپ بات ہے۔ بیشتر اپوزیشن پارٹیوں نے بجٹ کو غیر اطمینان بخش بتاتے ہوئے اس کے خلاف ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ بھی کیا۔ اکھلیش یادو نے تو بجٹ میں اتر پردیش کے ساتھ انصاف نہ کرنے کا الزام لگا کر ایک تیر سے دو نشانے لگانے کی کوشش کی ہے۔ اپوزیشن کے اقتدار والی کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بجٹ کے خلاف احتجاج کے طور پر ’نیتی آیوگ‘ کی میٹنگ کا بائیکاٹ بھی کر رہے ہیں۔ بجٹ کا ایک اور قابلِ توجہ پہلو یہ ہے کہ اس میں نوکری پیشہ افراد کو سوائے ٹیکس سلیب میں معمولی تبدیلی کے کچھ نہیں ملا۔ حالانکہ یہ وہ طبقہ ہے جو سب سے زیادہ انکم ٹیکس ادا کرتا ہے لیکن کسی بڑی راحت سے اسے محروم رکھا گیا ہے۔

بہرحال دیگر کئی قابل ذکر شعبوں کو نظر انداز کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے شعبے کے تعلق سے بجٹ میں جو رویہ اپنایا گیا ہے وہ مایوس کن ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت اس شعبے کے فروغ کو لے کر کوئی بڑا قدم اٹھانے سے کسی نہ کسی سبب سے گریزاں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔