کسانوں اور غریبوں سے اپنا مقدمہ ہارنے کے بعد بھی ارون جیٹلی کی جرح جاری

مرکزی وزیر مالیات ارون جیٹلی نے کسانوں اور غریبوں کے لیے جتنی بھی سطحی اور نمائشی کوششیں اس بجٹ میں کی ہوں لیکن اس کی حقیقت سب کو معلوم ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

روہت پرکاش

بجٹ 2018 کا ہندوستانی معیشت پر دور رَس اثرات کیا ہوتے ہیں، یہ تو آنے والے وقت میں ہی پتہ چلے گا، لیکن اس بجٹ نے ارون جیٹلی کی کئی کمزوریوں کو ایک ساتھ ظاہر کر دیا ہے۔ یکم فروری 2018 کا دن تاریخ میں اس بات کے لیے بھی یاد کیا جائے گا کہ وزیر مالیات کی جو شبیہ گزشتہ کئی سالوں میں بنی تھی وہ قدرتی نہیں بلکہ ایک طویل کوشش کا نتیجہ تھی اور اچانک ایک کمزور لمحہ آتے ہی ٹوٹ گئی۔

ارون جیٹلی کی شناخت ایک اچھے وکیل کی ہے۔ حالانکہ ادھر کچھ سالوں میں اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ضروری دلائل کی کمی رہی ہے۔ لیکن 2018 کے بجٹ نے آخر یہ ثابت کر دیا کہ وکالت میں ان کی گرفت کمزور ہو چکی ہے۔ بجٹ بناتے وقت اور ملک کے سامنے رکھتے ہوئے وہ یہ بات بھول گئے کہ آخر میں مقدمہ ہار جانے کے بعد اس پر عدالت میں جرح کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔ ارون جیٹلی اور مودی حکومت کسانوں و غریبوں سے اپنا مقدمہ ہار چکی ہے۔ اور اب اس ملک کے محنت کشوں و مزدوروں اور کسانوں کو خوش کرنے کی ان کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ انھوں نے بہت دیر کر دی ہے۔

کسانوں اور غریبوں کے لیے جتنی بھی سطحی اور نمائشی کوششیں اس بجٹ میں کی گئی ہوں لیکن اس کی حقیقت سب کو معلوم ہے۔ اگر یہ بجٹ ان کا ’پختہ ارادہ‘ بھی ہے تو ایسا ہونے میں چار سال لگنا کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔ اور ان کے پاس کسانوں کے لیے کیے گئے اعلانات کو پورا کرنے کے لیے وقت بھی کتنا بچا ہے؟ بمشکل ایک سال۔ کیا کسان اور غریب انھیں پانچ سالوں کا مزید وقت دیں گے ان وعدوں کو پورا کرنے کے لیے؟ قطعی نہیں۔ اور ہمارے ملک کی نوکرشاہی اور انتظامیہ میں راتوں رات کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے کسانوں کو اپنے اچھے دن کے لیے ابھی اور انتظار کرنا پڑے گا۔ اور یہ انتظار وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں کر سکتے بلکہ انھیں فیصلہ لینا ہوگا اور وہ فیصلہ یقیناً مودی حکومت کے خلاف جائے گا جس کے سیاسی وکیل ارون جیٹلی ہیں۔

ایک بار کانگریس لیڈر امبیکا سونی نے ان کی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اچھی انگریزی اور ہندی بولتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہر چیز کو درست ٹھہرا سکتے ہیں۔ پتہ نہیں ایسا کیا تھا کہ ہندی اور انگریزی میں دی گئی اپنی تقریر کے دوران وہ لگاتار غیر یقینی اور اعتماد کی کمی سے نبرد آزما تھے۔ حالانکہ پہلے وہ دونوں زبانوں میں آسانی کے ساتھ گفتگو کرتے رہے ہیں۔ لیکن آج کچھ الگ ہوا۔ شاید وہ جو کہہ رہے تھے اس پر انھیں بھروسہ نہیں تھا۔ انگریزی میں تو پھر بھی حالات بہتر تھے، لیکن ہندی؟ اُف! لگ رہا تھا کسی کو پہلی بار اپنے لوگوں کے درمیان تقریر کے لیے کھڑا کر دیا گیا ہو۔

اقتدار کے گلیاروں کی نظر نہ آنے والی دھول سے واسطہ رکھنے والے لوگوں نے طویل مدت سے یہ افواہ اڑا رکھی ہے کہ میڈیا مینجمنٹ میں ارون جیٹلی دھیرے دھیرے کافی ماہر ہو گئے ہیں۔ حکومت کی ہر قدم سے تال ملانے کی کوشش میں ہندوستانی میڈیا کے بڑے حصے کو مبتلا دیکھ کر اس پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں بچتی۔ لیکن وہ آج اپنے سب سے محفوظ قلع کو بھی نہیں بچا پائے۔ وہاں سے بھی انھیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ میڈیا متوسط طبقہ کا ہے اور اس کے مفادات کے لیے بجٹ میں کچھ بھی نہیں۔ جو لوگ کھل کر انھیں بھلا برا نہیں کہہ پا رہے تھے ان کے چہرے پر بھی ایسے جذبات تھے جیسے انھیں کسی سانپ نے کاٹ لیا ہو۔

ارون جیٹلی وزیر مالیات ہیں اور لگاتار پچھلے 4 سال سے ہیں تو ظاہر ہے اس ملک کے بڑے تاجروں کے درمیان ان کی مقبولیت ہے۔ ان کے اعلیٰ سماجی رویے کو دیکھ کر یہ لگتا بھی ہے کہ بزنس مین کو ان سے میٹنگ کرنے میں کوئی مسئلہ پیش نہیں آتا ہوگا۔ غور سے دیکھا جائے تو بی جے پی-آر ایس ایس کے وسیع مینڈیٹ میں انھیں لے کر جو جھجک ہے اس کی وجہ ان کا اعلیٰ سماجی رویہ ہی ہے۔ زیادہ تر بی جے پی حامی انھیں اپنے جیسا تصور نہیں کرتے۔ اس امیر اور بزنس مین طبقے میں بھی کیا منھ لے کر جائیں گے ارون جیٹلی؟ یہ کہیں گے کہ انتخابات آنے والے ہیں! کوئی پلٹ کر ان سے یہ بھی تو کہہ سکتا ہے کہ انتخابات کی فکر آپ کیوں کرتے ہیں، ہم پر چھوڑ دیں!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔