سیبی سربراہ مادھبی پوری بُچ پر الزامات، مفادات کے تصادم پر تشویش

سیبی کی صدر مادھبی پوی بُچ کے آئی سی آئی سی آئی گروپ سے مستعفی ہونے کے بعد بھی مختلف مالی فوائد حاصل کیے، جس کے سبب مفادات کے تصادم پر تشویش میں اضافہ ہوا ہے

<div class="paragraphs"><p>مادھبی پوری بُچ / Getty Images</p></div>

مادھبی پوری بُچ / Getty Images

user

سچیتا دلال

سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا (سیبی) کی صدر مادھبی پوری بُچ پر کانگریس پارٹی کی جانب سے لگائے گئے الزامات نے مالیاتی شعبے میں ہلچل مچا دی ہے اور اس سے مارکیٹ ریگولیٹر کی ایمانداری پر مزید سوالات اٹھ رہے ہیں۔

مادھبی کے خلاف لگائے گئے الزامات اتنے حیرت انگیز ہیں کہ ابتدائی طور پر کچھ تجربہ کار ماہرین بھی شک میں پڑ گئے کہ کہیں کانگریس ’ڈیپ فیک‘ کا شکار تو نہیں ہو گئی! ابتدائی ہلچل کے کچھ کم ہونے کے بعد دھند چھٹنے لگی اور راز گہرا ہونے لگا۔ آئی سی آئی سی آئی بینک کی اسٹاک ایکسچینج کو دی گئی آفیشل معلومات نے مفادات کے تصادم کے سوالات اٹھائے اور یہ بھی ظاہر کیا کہ نجی شعبے میں کام کرنے والے کسی فرد کو اعلیٰ سرکاری عہدے پر تعینات کرنے سے متعلق انکشافات کے پیمانے کتنے ناکافی ہیں۔

طویل عرصے سے سیبی کی تحقیقات میں ملوث ’زی گروپ‘ کے بانی سبھاش چندرا نے پریس کانفرنس کے ذریعے مادھبی بچ کے خلاف سنگین الزامات عائد کیے، جس سے بحران میں مزید اضافہ ہوا۔ مگر اب تمام تر توجہ کانگریس پر مرکوز ہے کیونکہ اس نے آئی سی آئی سی آئی بینک کی ایمپلائی اسٹاک آپشن (ای ایس او پی) کی پالیسی پر سوالات اٹھائے ہیں۔

ابتدائی الزامات

کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے پریس کانفرنس میں الزام لگایا ہے کہ مادھبی بچ نے تنخواہ، ای ایس او پی اور ٹیکس فوائد کے مجموعے کے طور پر آئی سی آئی سی آئی گروپ سے 16.8 کروڑ روپے (تقریباً 21 لاکھ امریکی ڈالر) حاصل کیے۔ یہ رقم سیبی صدر کے طور پر ان کی تنخواہ کا 5 گنا ہے۔ مادھبی نے آئی سی آئی سی آئی کی بروکریج فرم آئی سی آئی سی آئی سیکورٹیز کے سربراہ کے طور پر کام کرنے کے بعد 2013 میں گروپ کو چھوڑ دیا تھا۔ البتہ، آئی سی آئی سی آئی سیکورٹیز کا آئی سی آئی سی آئی بینک کے ساتھ انضمام بھی تنازعات میں گھرا ہوا ہے۔

اس سال ستمبر کے پہلے ہفتے میں آئی سی آئی سی آئی بینک نے اسٹاک ایکسچینج کو مطلع کیا کہ مادھبی بچ کو دی گئی تمام رقم 2013 میں بینک چھوڑنے کے بعد ملنے والے ریٹائرمنٹ فوائد کی تھی۔ تاہم، اس وضاحت سے تشویش ختم نہیں ہوئی، بلکہ اس نے مفادات کے تصادم اور ریگولیٹری اداروں کے سربراہوں کے انکشافات کے معیار اور ضروری نگرانی کے بارے میں نئی تشویشات کو جنم دیا۔


کانگریس نے 3 ستمبر کو آئی سی آئی سی آئی بینک کے بیان پر نئے سوالات اٹھائے اور کہا کہ آئی سی آئی سی آئی بینک کی ای ایس او پی پالیسی امریکی سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی) کی ویب سائٹ پر تو موجود ہے لیکن سیبی کی ویب سائٹ پر نہیں ہے۔ ای ایس او پی پر دستیاب کمپنی کی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ کوئی ملازم خود ارادیت سے ریٹائرمنٹ کے بعد تین ماہ کے اندر ای ایس او پی کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ یہ آئی سی آئی سی آئی بینک کے اسٹاک ایکسچینج کو دیے گئے انکشاف کے برعکس ہے کہ کوئی ملازم کمپنی چھوڑنے کے بعد 10 سال تک ای ایس او پی کا فائدہ اٹھا سکتا۔ تاہم، پالیسی کی ایک اور شق میں کہا گیا ہے کہ ای ایس او پی کا فائدہ حاصل کرنے کی مدت اس کی الاٹمنٹ کی تاریخ سے 10 سال تک مکمل ہو جائے گی۔ یہ کانگریس کے الزام کی تصدیق کرتا ہے کہ مادھبی بچ کو ’خصوصی فوائد‘ کے لیے منتخب کیا گیا۔

کانگریس نے یہ بھی سوال اٹھایا ہے کہ کیا ریٹائرمنٹ فوائد (جسے وہ پنشن/تنخواہ کہتے ہیں) کسی فرد کی آخری تنخواہ سے بہت زیادہ ہو سکتے ہیں! چونکہ کانگریس نے اس سے متعلق دستاویزات جاری نہیں کیے اور سیبی بھی خاموش ہے، لہذا یہ ابھی بھی واضح نہیں ہے کہ کانگریس کی پریس ریلیز میں دیے گئے اعدادوشمار میں ای ایس او پی شامل ہیں یا نہیں۔

انکشافات کا پیمانہ: شفافیت کا سوال

اس مسئلے کی جڑ میں ریگولیٹری اداروں کے اعلیٰ افسران کے لیے انکشافات کے ضوابط ہیں کیونکہ ان افسران کی غیر شائع حساس معلومات (یو پی ایس آئی) تک رسائی ہوتی ہے۔ ان افسران کے احکامات اور فیصلے اسٹاک کی قیمتوں کو ڈرامائی طور پر متاثر کر سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انکشافات اور تعمیل کے معیار کا سختی سے عمل ضروری ہے۔ کسی لسٹڈ (فہرست بند) کمپنی کے خلاف کسی منفی حکم سے اس کے شیئر کی قیمتوں میں کمی آ سکتی ہے اور اس کے جواب میں حریف کمپنیوں کے شیئر کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس سطح کے افسران کے ذاتی مفادات اور ہولڈنگز کا عوامی انکشاف ضروری ہوتا ہے۔

میں نے سیبی کے انسانی وسائل کے سربراہ کو ای میل کر کے پوچھا کہ کیا یو پی ایس آئی اور انکشاف کے ضوابط صدر پر بھی لاگو ہوتے ہیں؟ کیا صدر ای ایس او پی کے کیشنگ کا انکشاف ہر سال کرتے ہیں اور کیا اس پر کوئی پابندی ہے کہ سیبی کے صدر اور فل ٹائم ممبر (ڈبلیو ٹی ایم) اہم احکامات اور فیصلوں کے وقت سے کتنے پہلے اور کتنے بعد ای ایس او پی اور سرمایہ کاری کو کیش کر سکتے ہیں؟ مجھے سیبی سے ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔


مادھبی کے سیبی میں شامل ہونے کے بعد سات سالوں میں ریگولیٹری ادارے نے کارپوریٹ دنیا کے لیے انکشافات سے متعلق معیارات کو سخت کیا ہے۔ زیادہ تر ایسا لسٹنگ اوبلگیٹنز اینڈ ڈسکلوزر ریگولیشن (ایل او ڈی آر) اور انسائڈر ٹریڈنگ قوانین کے تحت کیا گیا۔ تاہم، مادھبی کے اپنے پچھلے آجر سے حاصل کردہ آمدنی/ای ایس او پی کے کیشنگ کے بارے میں ناکافی انکشاف پریشان کن سوالات اٹھاتا ہے۔ کیا کسی ریگولیٹری ادارے کا سربراہ نجی شعبے کی کسی کمپنی کو چھوڑنے کے ایک دہائی بعد بھی ای ایس او پی پر اپنے دعوے کو برقرار رکھ سکتا ہے؟ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ تین دہائیوں سے زیادہ پرانی سیبی میں ان ممکنہ تصادموں کو حل کرنے کے لیے مضبوط نظام کیوں نہیں ہیں؟

عالمی معیارات کی صورت حال

بین الاقوامی سطح پر ریگولیٹری سربراہوں کے لیے مفادات کے تصادم سے متعلق سخت معیارات ہیں۔ امریکہ میں عوامی خدمت میں تعینات سرکاری اہلکاروں کے لیے عمومی اصول ہیں کہ ’آپ ایسے مالی مفادات نہیں رکھیں گے جو آپ کی ذمہ داریوں کی دیانتداری سے انجام دہی میں رکاوٹ بنیں۔‘‘ زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں ریگولیٹری اداروں کے سربراہوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ان اداروں میں اپنی براہ راست ہولڈنگز بیچ دیں جو مفادات کے تصادم کو فروغ دے سکتے ہیں۔ ساتھ ہی، ایسی جائیدادیں جو آسانی سے نہیں بیچی جا سکتیں، انہیں ایک 'بلائنڈ ٹرسٹ' میں رکھا جانا چاہئے جو آزادانہ طور پر منظم ہو۔

امریکی ایس ای سی کے صدر کو عہدے کے وسیع اختیارات اور اثرات کے پیش نظر مفادات کے تصادم، سرمایہ کاری اور مالی انکشافات کے بارے میں مزید سخت قوانین کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی معاملات میں شفافیت کو یقینی بنانے اور بیرونی فریقوں کو ممکنہ مفادات کے تصادم کی نگرانی کرنے کی اجازت دینے کے لیے ان مالی انکشافات کو عوامی کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہینک پالسن نے گولڈمین سیکس کی نوکری چھوڑ کر امریکی وزارت خزانہ کی ذمہ داری سنبھالی۔ انہیں 70 کروڑ امریکی ڈالر مالیت کی اپنی سرمایہ کاری فروخت کرنا تھی، جس میں صرف ایک رعایت تھی کہ اگر 60 دن کے اندر سرکاری سیکورٹیز یا میوچوئل فنڈز میں دوبارہ سرمایہ کاری کریں تو اس سے حاصل شدہ کیپیٹل گینز بعد میں بھی حاصل کر سکتے تھے۔

اس کے برعکس ہندوستان میں قوانین غیر واضح ہیں۔ مرکزی احتساب کمیشن (سی وی سی) کا دستی جس کی آخری بار 2021 میں نظر ثانی کی گئی، زیادہ تر مبہم رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ حصص اور سرمایہ کاری میں ‘مسلسل سٹہ بازی‘ کے خلاف انتباہ کرتا ہے۔

یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ سیبی کے پاس اعلیٰ سطح پر بیٹھے افراد کے لیے کوئی قوانین ہی نہیں ہیں یا سیبی صدر کو اپنے سات سال کے عہدے کے دوران یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ سیبی صدر کے طور پر ان کے انتہائی حساس کردار کے پیش نظر تنخواہ/ای ایس او پی کے کیشنگ کا انکشاف ضروری تھا۔


مفادات کے تصادم پر اصول وضع کرنا کتنا مشکل

عام طور پر یہ معاملہ سیبی کے اندر مفادات کے تصادم کے لیے اصولوں کی کمی کا ہے۔ 1990 کی دہائی سے ہی سیبی کے سینئر افسران نے کاروبار اور سرمایہ کاری سے متعلق تنازعات کے پیش نظر غالباً جان بوجھ کر اس کمی کو چھوڑ دیا گیا۔ حصص میں لین دین پر سیبی کے اصولوں کے مطابق، اس کے افسران کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے 15 دنوں کے اندر اپنے اور اپنے خاندان کی حصص کی ملکیت کا انکشاف کرنا ہوتا ہے اور یہ انکشاف ہر مالی سال کے اختتام پر بھی کرنا ہوتا ہے۔ اہم لین دین کا بھی انکشاف 15 دن کے اندر کرنا ضروری ہے اور فل ٹائم ممبران کو غیر شائع حساس معلومات کی بنیاد پر خرید و فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ انکشافات عوامی نہ ہو کر خفیہ رہیں، تو مفادات کے ممکنہ تصادم پر نظر کون رکھے گا؟ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی داخلی نگرانی افسر یا انسانی وسائل کا شعبہ کسی صدر یا فل ٹائم ممبر کو جوابدہ ٹھہرائے؟ ہنڈن برگ تحقیق کے الزامات کے بعد ایسی معلومات بھی سامنے نہیں آئی کہ مفادات کے تصادم کے الزامات عائد ہونے کے بعد مادھبی نے خود کو اس معاملے سے الگ کر لیا ہو۔

ہنڈن برگ، سبھاش چندرا، کانگریس پارٹی جیسے مختلف ذرائع سے لگائے گئے الزامات اور اس کے بعد جاری بحث نے سیبی کے لیے یہ ضروری بنا دیا ہے کہ وہ اپنی داخلی پالیسیوں کا دوبارہ جائزہ لے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ جدید، شفاف ریگولیٹری ادارے سے مطلوبہ سخت معیارات پر پورا اترتا ہے۔ اسی صورت میں عوام کا اعتماد برقرار رہ سکتا ہے اور ہندوستان کی مالیاتی مارکیٹ کے محافظ کے طور پر اس کا کردار برقرار رہ سکتا ہے۔

---

(سُچیتا دلال ایک مشہور بزنس صحافی اور ’منی لائف ڈاٹ ان‘ کی ایڈیٹر ہیں، جہاں یہ مضمون پہلی بار شائع ہوا)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔