’پودے‘ محض ایک کتاب نہیں، بلکہ نایاب دستاویز ہے... امریک
پیش لفظ میں زاہد خان نے لکھا ہے کہ اردو ادب، خصوصاً اردو افسانوں کو جتنا تخلیقی تعاون کرشن چندر نے دیا اتنا شاید ہی کسی دوسرے ادیب نے دیا ہو، حالانکہ یہ جملہ کچھ مبالغہ آرائی پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔
کرشن چندر کا وجود اور ادب اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ ان لوگوں کی پہلی قطار میں سے ہیں جنھوں نے ترقی پسند راہوں کو نئی سمت و رفتار عطا کی۔ صرف لکھنا مقصد نہیں تھا، دل میں جنون یہ تھا کہ خرابیوں سے بھری اس دنیا میں انقلابی تبدیلیاں کیسے پیدا کی جائیں۔ کتاب ’پودے‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ عمومی طور پر ’پودے‘ کو رپورتاژ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ترقی پسند تحریر پر قابل ذکر کام کرنے والے صحافی/مصنف زاہد خان نے اشرت گوالیری کے تعاون سے اردو سے اس کا ہندی میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ اتنا آسان کام نہیں، لیکن زاہد خان ایک ضدی ثقافتی اہلکار ہیں۔ دن رات کی محنت سے انھوں نے اسے ممکن کر دیا۔ ان کی اس سے پہلے کی کتابوں کی فہرست ہے ’آزاد ہندوستان میں مسلمان، ’سَنگھ کا ہندوستان‘، ’فیصلے جو نظیر بن گئے‘، ’آدھی آبادی، ادھورا سفر‘، ’ترقی پسند تحریک کے ہم سفر‘، ’ترقی پسند تحریک کی رہ گزر‘، ’تحریکِ آزادی اور ترقی پسند شاعر‘ اور ’اِپٹا کی اَن کہی کہانیاں‘۔
’پودے‘ کا ترجمہ ان کی تازہ پیشکش ہے اور یقیناً ہر لحاظ سے قابل استقبال ہے۔ یہ تصنیف کرشن چندر سے وابستہ جانکاریوں کی نئی کھڑکیاں بھی کھولتی ہے۔ پیش لفظ میں زاہد خان نے لکھا ہے کہ اردو ادب، خاص طور سے اردو افسانوں کو جتنا تخلیقی تعاون کرشن چندر نے دیا، اتنا شاید ہی کسی دوسرے ادیب نے دیا ہو۔ حالانکہ یہ جملہ کچھ مبالغہ آرائی پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔ بہتیرے رائٹرس اور ان کے کام پر شاید زاہد خان کی توجہ نہیں گئی۔ یہ صحیح ہے کہ کرشن چندر ان سب میں سے اوّل تھے۔
کرشن چندر کی کتاب ’پودے‘ اکتوبر 1945 میں حیدر آباد (دکن) میں منعقد اردو کے ترقی پسند مصنّفین کی کل ہند کانفرنس کا رپورتاژ ہے۔ ملک میں اردو ادبا کی یہ پہلی کانفرنس تھی۔ آزادی سے پہلے ہوئی اس اہم کانفرنس میں اردو ادب سے منسلک بے شمار بڑے ادیب مولانا حسرت موہانی، احتشام حسین، ڈاکٹر عبدالعلیم، قاضی عبدالغفار، فراق گورکھپوری، سجاد ظہیر، ڈاکٹر ملک راج آنند، سروجنی نائیڈو، جوش ملیح آبادی، علی سردار جعفری، ساحر لدھیانوی، مخدوم محی الدین، کیفی اعظمی، وامق جونپوری، ساگر نظامی، سبط حسن، مہندرناتھ، عادل رشید، ممتاز حسین، ابراہیم جلیس، جگر حیدر آبادی، قدوس صہبائی، رفعت سروش، مدن گوپال اور کرشن چندر وغیرہ نے شرکت کی تھی۔ رپورتاژ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت کیسے ترقی پسند تحریک کی پوری کہکشاں زمین پر اتر آئی تھی۔ یہ ایک یادگار اور تاریخی کانفرنس تھی۔ رپورتاژ میں ہی درج ہے کہ اس کانفرنس کی کچھ اہم باتوں کا ذکر سجاد ظہیر نے اپنی اہم ترین کتاب ’روشنائی ترقی پسند تحریک کی یادیں‘ میں کیا ہے۔ ایک جگہ انھوں نے لکھا ہے ’’یہ کانفرنس کوئی پانچ دن تک ہوئی۔ اس کا افتتاح مسز نائیڈو نے کیا۔ افتتاحی تقریب ایک سنیما ہال میں منعقد ہوا تھا۔ اور اس میں کوئی دو ڈھائی ہزار کا مجمع رہا ہوگا۔ اس کانفرنس کے صدارتی وفد میں مولانا حسرت موہانی، ڈاکٹر تاراچند، کرشن چندر، فراق گورکھپور اور احتشام حسین شامل تھے۔ پہلے دن کی صدارت کرشن چندر نے کی۔‘‘
’پودے‘ میں کرشن چندر کے حوالے سے بہت تفصیل میں بتایا گیا ہے کہ اس کانفرنس مین سبط حسن نے اردو صحافت کی ترقی، سردار جعفری نے اقبال کی شاعری- فلسفہ اور زندگی، احتشام حسین نے اردو کی ترقی پسند تنقید، ساحر لدھیانوی نے اردو کی جدید انقلابی شاعری، سجاد ظہیر نے اردو-ہندی ہندوستانی کے مسئلہ، اور کرشن چندر نے اردو افسانے پر اپنے تحقیقی مقالے پڑھے۔ سجاد ظہیر نے ’روشنائی ترقی پسند تحریک کی یادیں‘ میں ایک جگہ لکھا ہے ’’اس سے بہتر یا ویسا بھی لکھنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ ’پودے‘ ادب اور صحافت کے ملے جلے فن میں، جس کا نام رپورتاژ ہے، ایک خاص حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں کانفرنس کی تفصیلات نہیں بلکہ اس کی فضا اور ماحول کو پیش کیا گیا ہے۔‘‘
’پودے‘ پڑھنے سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ سجاد ظہیر صاحب کی بات سو فیصد درست ہے۔ کرشن چندر نے اس کتاب میں کانفرنس کی اکیڈمک تفصیلات پیش نہیں کی ہیں، بلکہ اس پوری کانفرنس کی فضا اور ماحول کی شاندار عکاسی کی ہے۔ شروعات ممبئی کے بوری بندر ریلوے اسٹیشن سے ہوتی ہے جہاں ترقی پسند ادیب حیدر آباد جانے کے لیے یکے بعد دیگرے اکٹھا ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد کرشن چندر نے بڑے دلچسپ طریقے سے گاڑی کے اندر کا پورا منظر نامہ کھینچا ہے۔ پورے ہندوستان کی اگر ایک جھلک دیکھنی ہے تو آپ ٹرین کے جنرل ڈبے میں سفر کیجیے۔ یہ ادیب بھی تھرڈ کلاس کے ڈبے میں سفر کر رہے تھے۔ کرشن چندر نے ایک بہترین فوٹوگرافر کی طرح اس سارے سفر کی مانو جیتی جاگتی تصویر کھینچ دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اپنے ساتھیوں کے خاکے اور آپسی بحث و مباحثوں کی جو تفصیلات ہے، اس کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔ انھوں نے اصل زندگی کے کرداروں کو کچھ اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ کسی افسانے کے کردار نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ کرشن چندر اپنے آپ کو بھی نہیں بخشتے۔ بڑی ہی ایمانداری سے انھوں نے اپنی خامیوں، برائیوں اور بری عادتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔
کتاب کا اگلا باب ’حیدر آباد اسٹیشن‘ ہے، جہاں انعقاد کمیٹی کے اراکین ان ادبا کی قیادت کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ کرشن چندر چھوٹی سی ملاقات کو بھی اپنی تحریر کے دلچسپ انداز سے افسانہ بنا دیتے ہیں۔ خاص طور سے لفظوں کا وہ جس گہرائی سے استعمال کرتے ہیں، وہ لاجواب ہے۔ تبسم کی قسموں سے وہ ہمارا تعارف کرواتے ہیں۔ کسی بھی شخص کا خاکہ کچھ اس طریقے سے پیش کرتے ہیں کہ اس کی تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے تیرنے لگتی ہے۔ کتاب میں اجلاس کا بھی ذکر ہے، مگر مختصر۔ انھوں نے اجلاس کے ماحول پر ہی اپنے آپ کو مرکوز کیا ہے۔ اس میں اجلاس کی سنجیدہ تقریریں اور بحث و مباحثے نہیں ہیں۔ کانفرنس سے الگ حیدر آباد میں ادیبوں کی دیگر سرگرمیوں اور سیر سپاٹے کی بھی تفصیل ہے۔ آزادی سے پہلے کا حیدر آباد، جب یہ نظام اسٹیٹ تھا، جاگیرداری اپنے عروج پر تھی، اس کی بھی ایک جھلک کتاب کے ’پرانا محل‘ باب میں نظر آتی ہے۔ ایک ترقی پسند ادیب اپنے آس پاس کے ماحول کی کن چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بیان سے حکومت کے اصل کردار کو سامنے لاتا ہے، اس باب کو پڑھ کر معلوم چلتا ہے۔
مترجم زاہد خان اور ان کے ساتھی عشرت گوالیری ’پودے‘ جیسی نایاب تصنیف ہندی زبان میں دستیاب کرانے کے لیے نیک خواہشات اور مبارکباد کے حقدار ہیں۔ یقیناً پڑھنے والوں پر یہ کتاب اپنے دور رَس اثرات قائم کرے گی۔ کتاب میں ادب اور انسانی زندگی پر کئی معنی خیز تبصرے ہیں۔ اپنے وقت کے بڑے بڑے ادبا سجاد ظہیر، سردار جعفری، مولانا حسرت موہانی، ڈاکٹر عبدالعلیم، سبط حسن، قاضی عبدالغفار کے چھوٹے چھوٹے خاکے ہیں جن میں ان کی پوری شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے۔ کرشن چندر کی تحریر کا جادو پوری کتاب میں بکھرا پڑا ہے۔ مشہور شاعر علی سردار جعفری نے اس عظیم افسانہ نگار کی جادوئی تحریر کے بارے میں ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’سچی بات یہ ہے کہ کرشن چندر کی تحریر سے مجھے رشک آتا ہے۔‘‘ امید ہے کہ ’پودے‘ پڑھ کر باقی لوگ بھی سردار جعفری کے اس قول کے قائل ہو جائیں گے۔
’پودے‘ میں بارہ ابواب ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ کسی بھی باب سے پڑھنا شروع کیجیے، لگے گا ہی نہیں کہ پچھلا کوئی باب چھوٹ گیا ہے اور آگے کوئی نیا آنے والا ہے۔ ہر باب اپنے آپ میں مکمل ہے۔ یہ بہت کم کتابوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ جنھوں نے کرشن چندر کو صرف اُردو میں پڑھا ہے، ان کے لیے یہ ترجمہ بیش قیمتی تحفہ کی مانند ہے۔ صرف چند ایک جگہ پروف ریڈنگ کی غلطیاں ہیں، باقی پیشکش جاندار اور شاندار ہے۔ ایشیا پبلشرز نے اسے شائع کیا ہے اور اگر آپ کتابوں کے شوقین ہیں تو یہ کتاب آپ کی ذاتی لائبریری میں ضرور ہونی ہی چاہیے۔ ’امیزون‘ وغیرہ پر یہ آسانی سے دستیاب ہے۔ پوری کتاب میں اردو، عربی اور فارسی کے ہر مشکل الفاظ کے ساتھ ہندی معنی دیے گئے ہیں۔ یقینا کرشن چندر کی تصنیف ’پودے‘ ایک بہترین تخلیق ہے اور اپنی قسم کا پہلا رپورتاژ بھی۔ اس ہندی ترجمہ کے لیے ایک بار پھر زاہد خان کو نیک خواہشات و مبارکباد۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔