اگست ماہ میں پیدا ہونے والی 3 غیر معمولی شخصیات خشونت سنگھ، گلزار اور وجینتی مالا...حمرا قریشی

خشونت سنگھ کا کہنا ہے کہ موت کو میں فکر کرنے یا خوفزدہ ہونے کی شئے تصور نہیں کرتا، میں پہلے جب پریشان یا مایوس ہوتا تھا تو شمشان گھاٹ کی طرف چلا جاتا تھا، یہ میرے لیے علاج ثابت ہوتا تھا

<div class="paragraphs"><p>خشونت سنگھ، گلزار، وجنتی مالا / Getty Images</p></div>

خشونت سنگھ، گلزار، وجنتی مالا / Getty Images

user

حمرا قریشی

خشونت سنگھ کا کہنا ہے کہ موت کو میں فکر کرنے یا خوفزدہ ہونے کی شئے تصور نہیں کرتا، میں پہلے جب پریشان یا مایوس ہوتا تھا تو شمشان گھاٹ کی طرف چلا جاتا تھا، یہ میرے لیے علاج ثابت ہوتا تھا۔

مصنف خوشونت سنگھ

خشونت سنگھ ہر سال اپنی 2 سالگرہ مناتے تھے۔ پہلی سالگرہ 2 فروری کو اور دوسری 15 اگست کو۔ اس سے پہلے کہ مزید کچھ لکھوں، مجھے 2 سالگرہ تقریبات منانے کی وجہ ظاہر کر دینی چاہیے۔ جیسا کہ خشونت سنگھ خود وضاحت کرتے ہیں کہ ان کے والد کو یقین تھا کہ ان کی (خوشونت کی) پیدائش موسم بہار کے آغاز میں ہوئی تھی۔ اس لحاظ سے 2 فروری کی پیدائش قرار پائی۔ پھر وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کی پھوپھی کو زیادہ بھروسہ تھا کہ پیدائش بھادوں/مانسون کے درمیان ہوئی، اور اس طرح 15 اگست دوسری سالگرہ ہے۔

خوشونت سنگھ 1915 میں غیر منقسم پنجاب کے گاؤں ہڈالی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنی زندگی اپنی شرطوں پر گزاری۔ وہ بے خوف انداز میں بات کرتے تھے اور اسی طرح بے خوف ہو کر لکھتے بھی تھے۔ اس میں کسی طرح کا تضاد اور منافقت نظر نہیں آتا۔ جدید دور میں نظر آنے والی خرافات اور پیچیدگیوں سے بہت دور۔ آخر تک انھوں نے نہ ہی کمپیوٹر کا استعمال کیا، نہ سکریٹری رکھی اور نہ ہی موبائل فون کے گرویدہ ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ میرے بس کا نہیں ہے یہ سب... میں ایک نوٹ پیڈ پر لکھ کر ہی خوش ہوں۔‘‘

جب ان سے میری ملاقات اور بات ہوئی تو کئی غیر معمولی پہلو سامنے آئے۔ وہ کبھی واعظ نہیں تھے، صرف لطف باتیں کرتے تھے۔ یعنی گپ شپ اور بے کار کی آوارہ گردیوں میں وہ وقت ضائع کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کے اندر نہ ہی کوئی فرقہ وارانہ تعصب دیکھنے کو ملا، نہ کسی طرح کا جھوٹ اور فریب نظر آیا۔ خشونت کو فرقہ واریت سے نفرت تھی۔ انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ ’’آج میں اس بات کو لے کر فکرمند ہوں کہ ملک میں دائیں بازو کی فاشسٹ قوتیں مضبوط ہو رہی ہیں۔ نوجوانوں اور موجودہ نسل کو فرقہ وارانہ سیاست کے عروج اور اس میں شامل خطرات سے واقف ہونا چاہیے۔‘‘


2003 کے موسم بہار میں جب ان کی کتاب ’دی اِنڈ اِف انڈیا‘ (پینگوئن) شائع ہوئی تھی تو اس کے فوراً بعد انھوں نے مجھے ایک انٹرویو دیا تھا۔ اس انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’اگر ہم اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں اسے فرقہ وارانہ طاقتوں سے محفوظ رکھنا ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ لبرل طبقہ کمزور ہو رہا ہے، لیکن مجھے امید قوی ہے کہ موجودہ نسل فرقہ وارانہ اور فاشسٹ پالیسیوں کو مسترد کر دے گی۔‘‘ موت سے متعلق خشونت سنگھ کے خیالات بھی قابل غور ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مجھے موت سے خوف نہیں۔ موت تو یقینی ہے، اس لیے موت کے بارے میں فکر مند نہ رہیں، بلکہ اس کے لیے تیار رہیں۔ جیسا کہ اسداللہ خاں غالب نے بیان کیا ہے– رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے/ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔‘‘ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’’موت کو میں فکر کرنے یا خوفزدہ ہونے کی شئے تصور نہیں کرتا۔ میں پہلے جب پریشان یا مایوس ہوتا تھا تو شمشان گھاٹ کی طرف چلا جاتا تھا۔ یہ میرے لیے علاج کی طرح کام کرتا تھا۔ ہاں، میں موت کے بارے میں سوچتا ضرور ہوں... لیکن ایسا نہیں ہے کہ دوبارہ پیدائش کے نظریے پر یقین ہو۔ میں تو اکثر بڑے میاں (خدا) سے کہتا ہوں کہ اسے میرا انتظار کرنا ہے، کیونکہ میرے پاس ابھی کچھ کام پڑے ہیں جنھیں مکمل کرنا ہے۔‘‘

خشونت کہتے ہیں کہ ’’ہاں مجھے ضعیفی میں ہونے والی معذوری کا خوف ضرور ہے۔ ہائی بلڈ پریشر، کمزوری، بہراپن، بینائی کی کمی۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں میں اندھا نہ ہو جاؤں، یا پتھر کی طرح بہرا نہ بن جاؤں، یا پھر کہیں فالج سے خاتمہ نہ ہو جائے۔‘‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’میں تدفین کو لے کر پُرجوش کیوں تھا، اس لیے کہ ایسا کر کے جو کچھ آپ نے لیا ہے وہ آپ زمین کو واپس کر دیتے ہیں... اب یہ الیکٹرک کریمیٹوریم ہوگا۔‘‘ پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’جب جانے کا وقت آئے تو ایک انسان کی طرح چلے جاؤ، بغیر کسی پشیمانی کے اور بغیر کسی سے کوئی رنجش یا شکایت کے۔

شاعر گلزار

گلزار صاحب اعلیٰ پایہ کے شاعر ہیں جو 18 اگست 1934 کو پیدا ہوئے۔ ان کے جیسا شاعر شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے جس کی آنکھوں سے ہی شاعری چھلک پڑتی ہے۔ گلزار صاحب کی جذبات سے لبریز آنکھوں کی طرف دیکھیے... ان کی آنکھوں میں کچھ ہے، جو ان کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس اثر کو محسوس کیا جا سکتا ہے جب کوئی ان کے کلام کو ان کے خیالات کے ساتھ پڑھنا شروع کرتا ہے۔


میں ان کے کلام کو جتنا پڑھتی ہوں، اس کی وسعت سے اتنا ہی حیران رہ جاتی ہوں۔ اس میں حساسیت ہے، اتنا ہی نہیں، ان کے استعمال کردہ الفاظ اور کلام میں سادگی پنہاں ہے۔ یہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس میں کوئی حیرت نہیں کہ ان کی شاعری کے پرستار ہماری سرزمین سے لے کر دوسرے ممالک تک ہیں۔ ویسے بھی شاعر سرحدوں اور رکاوٹوں میں کہاں یقین کرتے ہیں۔

اور جب میں بیٹھ کر اس کتاب کو ایک بار نہیں بلکہ دوبارہ پڑھتی ہوں، جس میں نسرین منی کبیر کے ساتھ ان کی گفتگو شامل ہے، تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اسے اسکول کے نصاب میں متعارف کرایا جانا چاہیے۔ ایسا اس لیے کیونکہ یہ کتاب صرف ان کے کلام اور خیالات پر مشتمل نہیں ہے، بلکہ زندگی کا ایک پورا فلسفہ اپنے اندر سمیٹے ہوئی ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے پہلی بار گلزار صاحب سے ملاقات کا خیال آیا۔ یہ اپنے آپ میں ایک تجربہ تھا۔ میں ان سے پہلی مرتبہ 2005 کے موسم گرما میں ایک قومی روزنامہ کے لیے انٹرویو کے مقصد سے ملی تھی۔ وہ نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں بیٹھے تھے، اس لیے فیصلہ ہوا کہ میں ان سے ٹی وی لاؤنج میں ناشتے پر ملاقات کروں۔

چند منٹوں بعد جب ہماری بات چیت شروع ہوئی اور گفتگو میں وادیٔ کشمیر کا تذکرہ ہوا تو گلزار صاحب خاموشی کے ساتھ رو رہے تھے۔ وہ بہت زیادہ جذباتی نظر آ رہے تھے۔ وہ مجھ سے کہتے ہیں ’’وادیٔ کشمیر نے ہمیشہ مجھے اس حد تک متوجہ کیا تھا کہ راکھی (شریک حیات) اور میں نے اپنی سہاگ رات کے لیے سری نگر جانے کا فیصلہ۔ راکھی اور میں اکثر اپنی بیٹی بوسکی کو یہ کہہ کر چھیڑتے ہیں کہ اس کی بنیاد وادیٔ کشمیر میں پڑی۔ سری نگر میں ہم اوبرائے ہوٹل میں ٹھہرے اور وہاں باغ میں دو شاندار چنار (درخت) تھے۔ میں نے انھیں بادشاہ اور بیگم، یا پھر جہانگیر اور نور جہاں نام دیا۔ میں نے انھیں جب حالیہ سالوں میں دوبارہ دیکھا تو وہ بہت اُداس معلوم پڑ رہے تھے... کشمیر دراصل میرے جذبات کا اٹوٹ حصہ ہے۔ یہ میرے دل کے انتہائی قریب کا خطہ ہے۔ وادیٔ کشمیر پر بہت پہلے فلم بنانے کا بھی منصوبہ تھا، میں نے اس کا نام ’اس وادی میں‘ رکھ بھی دیا تھا جو کہ کرشن چندر کے مختصر افسانوں کے مجموعہ ’کتاب کا کفن‘ پر مشتمل تھا۔ اس کہانی میں وادی کے دو اطراف مقیم دو محبت کرنے والوں کا حال زار بیان کیا گیا تھا کہ وہ کس طرح مشکلات میں تھے۔ وہ فوجی رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش میں تھے۔ افسوس کہ یہ فلم نہیں بن سکی، کیونکہ کارگل جنگ شروع ہو گیا تھا۔‘‘


کئی سال گزرے جب گلزار کے افسانوں کا مجموعہ ’ہاف اے روپی اسٹوریز‘ (پینگوئن) نئی دہلی میں لانچ ہوا تو میں اس تقریب میں شرکت نہیں کر سکی۔ وجہ یہ تھی کہ میرے ایک چچازاد کے ساتھ اتر پردیش میں خوفناک حادثہ ہو گیا تھا، اس لیے مجھے جلدبازی میں وہاں جانا پڑا۔ واپسی پر یہ دیکھ کر میں جذبات سے بھر گئی کہ گلزار صاحب نے اس مجموعہ میں اپنی ایک مختصر کہانی کو میرے نام وقف کیا ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے ایک سطرح یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ہم نے کشمیر کے بارے میں بہت کچھ بات چیت کی ہے، حالانکہ ہم میں سے کوئی بھی وہاں کا نہیں ہے۔‘‘

مشہور اداکارہ وجینتی مالا بالی

وجینتی مالا اپنا یومِ پیدائش 13 اگست کو مناتی ہیں۔ انھوں نے 54 سے زائد فلموں میں کام کرنے کے بعد بالی ووڈ کو الوداع کہہ دیا۔ دراصل انھوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد فلموں سے دوری اختیار کر لی۔ ایک بار انھوں نے مزاحیہ انداز میں کہا بھی تھا کہ ’’آخر میں نے فلموں کو چھوڑ دیا، ریٹائر نہیں ہوئی۔‘‘

بعد میں وجینتی مالا نے سیاسی میدان میں قدم رکھا اور رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے انھوں نے جنوبی مدراس کی نمائندگی کی۔ ایک انٹرویو کے دوران جب میں نے ان سے سیاسی میدان میں قدم رکھنے سے متعلق پوچھا تو انھوں نے بہت تفصیل سے اپنی بات رکھی۔ انھوں نے کہا کہ ’’میرے شوہر کا خیال تھا کہ میں سیاست داں بننے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ سیاست میں آؤں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاست کی طرف بہت آہستہ آہستہ قدم بڑھا۔ شروع میں ہم نے تمل ناڈو کا دورہ کیا اور اس وقت کے زمینی حقائق کو سمجھنے کی کوشش کی۔ لوگوں کا رویہ مایوس کن رہا... ہم نے جس جگہ کا بھی سفر کیا، ایک حقیقت یہ دیکھنے کو ملی کہ عوام مسز اندرا گاندھی سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ پھر جب ہم نئی دہلی گئے تو اندرا گاندھی سے ملاقات کی اور انھیں تمل ناڈو کے حالات سے واقف کرایا۔ ساتھ ہی میں نے سیاست کے تئیں اپنے جھکاؤ کے بارے میں بھی بتایا۔ وہ حوصلہ افزا انداز میں مسکرائیں، اور پھر اس طرح میں نے سیاست اور سیاسی منظرنامہ میں قدم رکھا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔