سنیل دَت: آخری دم تک سماجی خدمات انجام دینے والا سُپر اسٹار
سنیل دت کا فلمی سفر ریلوے پلیٹ فارم سے شروع ہوا تھا اور ان کی آخری فلم منا بھائی ایم بی بی ایس پر ختم ہوا۔
ہندی سنیما کی دنیا میں سنیل دت واحد ایسے اداکار تھے جنہوں نے صحیح معنوں میں اینٹری ہیرو کا کردار ادا کیا اور اسے برقرار رکھا بھی رکھا۔ بلراج رگھو ناتھ دت عرف سنیل دت6 جون 1929 کو، پاکستان کے شہر جہلم میں پیدا ہوئے۔ وہ بچپن سے ہی اداکار بننے کے خواہش مند تھے۔ سنیل دت کو اپنے کریئر کے ابتدائی دور میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ زندگی گزارنے کے لیے انہوں نے بس ڈپو میں چیکنگ کلرک کے طور پر کام کیا جہاں انہیں 120 روپے ماہانہ اجرت ملتی تھی۔ اس درمیان انہوں نے ریڈیو سلون میں بھی کام کیا جہاں وہ فلمی اداکاروں کا انٹرویو لیا کرتے تھے۔ ہر انٹرویو کے لئے انہیں 25 روپے ملتے تھے۔
سنیل دت نے اپنے فلمی کریئر کا آغاز سال 1955 میں آئی فلم ’ریلوے پلیٹ فارم‘ سے کیا۔ سال 1955 سے 1957 تک وہ فلم انڈسٹری میں اپنی جگہ بنانے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ ’ریلوے پلیٹ فارم‘ کے بعد انہیں جو بھی کردار ملا اسے وہ قبول کرتے چلے گئے۔ اس دوران انہوں نے کندن، راجدھانی ، قسمت کا کھیل اور پائل جیسی کئی بی گریڈ کی فلموں میں کام کیا لیکن ان میں سے کوئی بھی فلم باکس آفس پر کامیاب نہ ہوسکی۔
سنیل دت کی قسمت کا ستارہ 1957 میں ریلیز فلم مدر انڈیا سے چمکا۔ اس فلم میں سنیل دت نے نرگس کے چھوٹے بیٹے کا منفی کردار ادا کیا تھا۔ کیرئر کے ابتدائی دور میں منفی کردار ادا کرنا کسی بھی نئے اداکار کے لئے چیلنج سے بھر پور ہوتا ہے۔ لیکن سنیل دت نے اس چیلنج کو بخوبی قبول کیا اور اینٹی ہیرو کا کردار نبھا کر آنے والی نسلوں کو بھی ترغیب دی۔ سنیل دت نے کئی فلموں میں منفی رول ادا کیے ان میں جینے دو، ریشما اور شیرا، ہیرا، پران اجائے پر وچن نہ جائے۔ 36 گھنٹے، گیتا میرا نام، زخمی، آخری گولی ، پاپی وغیرہ فلمیں قابل ذکر ہیں۔
مد ر انڈیا نے سنیل دت کے فلمی کیرئر کے ساتھ ہی ان کی ذاتی زندگی پر بہت اثر ڈالا۔ اس فلم میں انہوں نے نرگس کے بیٹے کا رول ادا کیا تھا۔ فلم شوٹنگ کے دوران نرگس ایک سین میں آگ کی زد میں آگئی تھیں اور ان کی زندگی خطرہ میں پڑ گئی تھی۔ اس وقت سنیل دت اپنی جان کی پروہ کیے بغیر آگ میں کود گئے اور نرگس کو آگ کی لپٹوں سے بچالیا۔ اس درمیان سنیل دت اور نرگس دونوں آگ کی لپٹوں سے کافی جل گئے تھے۔ دونوں کواسپتال میں داخل کرایا گیا ۔ صحت یاب ہوئے تو دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔
فلمی کیریر کے دوران بھی سنیل دَت ملک کی خدمت کے مواقع سے ہمیشہ منسلک رہے۔ فوجی بھائیوں کے لیے سرحد پر جا کر پروگرام کرنا ہو یا خشک سالی اور سیلاب متاثرین کے لیے چندہ جمع کرنے جیسے کام ہوں، سنیل دَت ہمیشہ آگے رہے۔ پنجاب میں پھیلی دہشت گردی کے خلاف انھوں نے ممبئی سے امرتسر تک کی پیدل امن یاترا کی۔ پھر وہ سرگرم سیاست کے سہارے سماجی خدمت کے لیے میدان میں اترے۔ ممبئی سے وہ پانچ بار کانگریس کی ٹکٹ پر لوک سبھا انتخاب جیتے۔ 05-2004 میں وہ منموہن سنگھ حکومت میں یوتھ معاملوں اور کھیل محکمہ میں کابینہ وزیر بھی رہے۔
سال 1963 میں ریلیز فلم یہ راستے ہیں پیار کے، کے ذریعہ سنیل دت نے فلم پروڈکشن کے شعبے میں قدم رکھا۔ سال 1964 میں ریلیز فلم یادیں سنیل دت کی ہدایت میں بنی پہلی فلم تھی۔ سال 1967 سنیل دت کے فلمی کیریر کا سب سے اہم سال ثابت ہوا۔ اس سال ان کی ملن، مہربان، اور ہمراز جیسی فلمیں سپرہٹ ثابت ہوئیں ان فلموں میں ان کی اداکاری کے نئے روپ دیکھنے کو ملے۔ ان فلموں کی کامیابی کے بعد وہ شہرت کی بلندیوں پر جا بیٹھے اور ہندی فلموں میں اپنی اداکاری کا لوہا منوایا۔ ایک اداکار کی حیثیت سے تاریخی فلم ’مدر انڈیا‘، سجاتہ، پڑوسن، جانی دشمن، میرا سایہ اور ملن جیسی کامیاب فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔
سال 1972 میں سنیل دت نے اپنی طویل عرصے سے التوا میں پڑی فلم ریشما اور شیرا کی ہدایت کی لیکن کمزور اسکرپٹ کی وجہ سے یہ فلم پردہ سیمیں کی رونق نہ بن سکی۔ لیکن 1981 میں اپنے بیٹے سنجے دت کولے کر فلم راکی بنائی جو سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ اپنے دور میں سنیل دت نے تقریباً سبھی بڑے پروڈکشنز اور ہدایت کاروں کے ساتھ کام کیا۔ ان کی آخری فلم منا بھائی ایم بی بی ایس تھی۔
فلم میں کامیاب اداکار ہونے کے بعد انہوں نے سیاست میں حصہ لیا اور اس میدان میں بھی انہوں نے مثال قائم کر دی۔ کانگریس پارٹی سے لوک سبھا سیٹ کے لئے وہ پانچ مرتبہ ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ سنیل دت منموہن سنگھ حکومت میں کھیلوں کے مرکزی وزیر بھی رہے۔
مشہور نغمہ نگار جاوید اختر نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے سنیل دت کے بارے میں کہا تھا کہ وہ سیاستداں سے زیادہ سماجی خدمت گار تھے۔ وہ ایک اچھے انسان تھے۔ وہ سرحدوں پر جا کر وہ فوجی جوانوں کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ یش چوپڑہ نے کہا کہ اس وقت ان کے پاس الفاظ نہیں ہیں جس سے وہ سنیل دت جیسی شخصیت کی تعریف کر سکیں۔ وہ ایک اچھے دوست اچھے باپ تھے۔ انہوں نے کبھی غلط باتوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ مدر انڈیا میں اینگری ینگ میں کا کردار نبھایا تو پڑوسن میں مزاحیہ کردار جبکہ ریشماں اور شیرا میں ڈاکو کا کردار نبھایا اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہمہ جہت فنکار تھے۔
وہ اپنی فلموں کے ذریعہ وہ سماج میں پھیلی برائیوں کو اجاگر کرنا چاہتے تھے اس لئے جہیز مخالف فلم ’یہ آگ کب بجھے گی‘ اور کینسر پر درد کا رشتہ فلم بنائی تھی۔ انہیں ذات پات پر یقین نہیں تھا۔ مذہب اور ذات پات کی تفریق سے اونچا اٹھ کر انہوں نے کام کیے۔ اس لئے دنیا انہیں کبھی بھول نہیں سکتی۔ انسان مر جاتا ہے لیکن انسانیت اور ایک فنکار کبھی نہیں مرتا۔ سنیل دت کا فلمی سفر ریلوے پلیٹ فارم سے شروع ہوا تھا اور ان کی آخری فلم منا بھائی ایم بی بی ایس پر ختم ہوا۔
سنیل دت کو اپنے فلمی کیرئر میں دو بار بہترین اداکار کے لئے فلم فیئر ایوارڈ سے نواز ا گیا۔ ان میں مجھے جینے دو 1963 اور 1965 میں بنی فلم خاندان شامل ہیں۔ سال 1968 میں سنیل دت کو پدم شری انعام سے نوازا گیا۔ سنیل دت نے کئی پنجابی فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ سال 2005 میں انہیں پھالکے رتن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ سنیل دت نے تقریباً 100 فلموں میں کام کیا۔ بالی ووڈ میں اپنی ایک انوکھی شناخت بنانے والے سنیل دت 25 مئی 2005 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔