رہیں نہ رہیں ہم، مہکا کریں گے...
ہندی فلم انڈسٹری میں سچترا سین کی دھماکے دار انٹری بمل رائے کی فلم ’دیوداس‘ سے ہوئی۔ حالانکہ دیوداس میں پارو کے کردار کے لیے بمل رائے کی پہلی پسند مینار کماری تھیں۔
اپنے وقت کی بے حد خوبصورت اور باصلاحیت اداکارہ سچترا سین اب ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن رنگین پردے پر نبھائے گئے اپنے کرداروں کی بدولت وہ ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ راز کے پردے میں رہا۔ ان کی اداکارہ بیٹی منمن سین اور اداکارہ نتنی رائما سین کو بھی اس راز اور تنہائی کا دائرہ توڑنے کی اجازت نہیں تھی۔
ویمل رائے کی فلم ’دیوداس‘ کے لیے قومی ایوارڈ سے نوازی گئیں روما عرف سچترا کی پیدائش 6 اپریل 1931 کو پاونا (بنگلہ دیش) میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کروناموئے داس گپتا ٹیچر تھے۔ تین بھائیوں اور پانچ بہنوں کے درمیان سچترا پانچویں نمبر کی اولاد تھیں۔ 16 سال کی عمر میں ہی ان کی شادی کولکاتا کے معروف وکیل آدی ناتھ سین کے بیٹے دیباناتھ سین کے ساتھ ہوئی۔ سچترا نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ فلموں میں کام کریں گی لیکن ہدایت کار اَسِت سین، جو ان کے خاندانی دوست تھے، شدت کے ساتھ محسوس کرتے تھے کہ سچترا میں بے مثال اداکارانہ صلاحیتیں موجود ہیں۔
بعد میں سچترا کے شوہر نے ہی انھیں فلموں میں کام کرنے کے لیے تیار کیا۔ 21 سال کی عمر میں جب انھوں نے رنگین پردے پر قدم رکھا اس وقت سات مہینے کی منمن سین ان کی گود میں تھی۔ ان کی پہلی فلم تھی ’شیپ کوتھائے‘ لیکن یہ فلم 20 سال بعد ’شرابون سندھیا‘ کے نام سے ریلیز ہو سکی۔ ان کی پہلی ریلیز فلم تھی ’سات نمبر قیدی‘ (1953)۔ اپنی تیسری فلم ’شرے چوتّر‘ میں انھیں بنگالی فلم کے سپر اسٹار اُتم کمار کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ فلم بہت کامیاب ثابت ہوئی اور اسی فلم سے بنگالی فلم کو سچترا سین اور اُتم کمار کی بے مثال جوڑی ملی۔ آئندہ 25 سالوں تک 30 فلمیں ایک ساتھ کر کے یہ جوڑی بنگالی سنیما پر راج کرتی رہی۔ سال 1963 میں سچترا سین کے کیریر کی سب سے شاندار بنگالی فلم آئی جس کا نام ہے ’سات پاکے باندھا‘۔ سچترا سین کی شاندار اداکاری کے لیے انھیں ماسکو فلم فیسٹیول میں بہترین اداکاری کا خطاب ملا۔ کسی ہندوستانی اداکارہ کو وہاں پہلی بار یہ اعزاز حاصل ہوا تھا۔
ہندی فلم انڈسٹری میں سچترا سین کی دھماکے دار انٹری بمل رائے کی فلم ’دیوداس‘ سے ہوئی۔ حالانکہ دیوداس میں پارو کے کردار کے لیے بمل رائے کی پہلی پسند مینار کماری تھیں لیکن وہ دوسری فلموں میں بے حد مصروف تھیں، اس لیے بمل رائے کی نظریں مدھوبالاپر مرکوز ہوئیں لیکن اس وقت تک دلیپ کمار اور مدھو بالاکے رشتے بے حد کشیدہ دور میں پہنچ گئے تھے۔ بالآخر مدھوبالا جیسی خوبصورت اور مینا کماری جیسی ٹریجک شبیہ کی تلاش سچترا سین پر ختم ہوئی۔ سال 1955 میں ریلیز ہوئی ’دیوداس‘میں سچترا سین نے پارو کے کردار میں جان پھونک دی۔
اَست سین کی فلم ’ممتا‘ (1966) آج بھی سچترا سین اور اپنی موسیقی کی وجہ سے یاد کی جاتی ہے۔ اس کا ایک مشہور نغمہ سچترا سین کی بے مثال خوبصورتی اور اداکاری کی سب سے بہترین عکاسی کرتا ہے۔ وہ نغمہ ہے ’رہیں نہ رہیں ہم مہکا کریں گے/ بن کے کلی بن کے صبا باغِ وفا میں‘۔ لیکن ہندی فلموں کی سرفہرست اداکاراوں میں سچترا کا نام شامل ہوا فلم ’آندھی‘ (1975) کی وجہ سے۔ آندھی کے بعد سچترا کے ساتھ فلم بنانے کے لیے کئی فلمکار خواہشمند نظر آئے لیکن اپنا کردار پسند نہ آنے کی وجہ سے سچترا نے کوئی فلم قبول نہیں کی۔ اُدھر ان کے گھریلو رشتوں میں دوریاں پیدا ہو گئی تھیں۔ شوہر امریکہ چلے گئے تھے اور وہیں ان کی موت بھی ہو گئی۔ سچترا خود میں سمٹتی چلی گئیں۔
1978 میں سومتر چٹرجی کے ساتھ آئی بنگالی فلم ’پرنے پاشا‘ کے فلاپ ہو جانے کے بعد انھوں نے خود کو تنہائی کے اندھیرے میں چھپا لیا۔ انھوں نے گھر سے باہر نکلنا تک بند کر دیا۔ انھوں نے 2005 میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ بھی لینے سے منع کر دیا تھا کیونکہ وہ کسی پبلک اسٹیج پر نہیں جانا چاہتی تھیں۔ خاموشی، تنہائی اور اکیلے پن کے درمیان سانسیں لے رہی سچترا سین کو 2014 میں موت نے اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے دور کر دیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔