امیتابھ بچن: ہار نہ ماننے والا ’صدی کا عظیم ستارہ‘
امیتابھ بچن ایک اعلیٰ درجہ کے ایسے اداکار ہیں جومسلسل تبدیل ہوتے پس منظر میں خود کو نئے دورمیں ڈھالتا گیا اور اپنی کوششیں کرتے نہ تو وہ کبھی تھکا۔
امیتابھ بچن ہندی فلم انڈسٹری کے ایک اہم اداکار ہی نہیں بلکہ خود میں ایک غیر معمولی شخصیت بھی ہیں۔ 1969 میں خواجہ احمد عباس کی ’سات ہندوستانی‘ سے فلمی زندگی کی شروعات کر کے امیتابھ اپنے طویل فلمی کیریر میں متعدد نشیب و فراض سے دو چار ہوئے لیکن ہر بار وہ اپنے عزم کی بدولت صورت حال کو نہ صرف معمول پر لانے میں کامیاب رہے بلکہ مزید بلندیوں پر پہنچے ۔ امیتابھ کے والد ہریونش رائے بچن کی یہ نظم ان کے حالات زندگی کی ترجمانی کرتی ہے۔
- ننہی چینٹی جب دانا لے کر چلتی ہے
- چڑھتی دیواروں پر، سوبار پھسلتی ہے
- من کا وِشواس رگوں میں ساہس بھرتا جاتا ہے
- چڑھ کر گرنا، گرکر چڑھنا نہ اکھرتا ہے
- آخر اس کی محنت بے کار نہیں جاتی
- کوشش کرنے والوں کی ہار نہیں ہوتی
60 کی دہائی میں جب امیتابھ فلم انڈسٹری میں جدو جہد کرنے آئے تھے تو وہ اس وقت کے ہیروکی شبیہ میں فٹ نہیں بیٹھتے تھے۔ ایک پتلا دبلا، بے حد لمبا اور گندمی رنگت کا بڑی بڑی آنکھوں والا لڑکا فلمی پردے پر نمودار ہونے والے راجیش کھنہ جیسے سپر اسٹار رہتے کس طرح مقبول ہو پاتا؟
لیکن آگے چل کر ان کی کمزوریاں ہی ان کی خوبیاں ثابت ہوئیں ۔ ’زنجیر ‘ میں وہ اس نوجوان کے کردار میں نظر آئے جو بہت چست درست ہے، خاموش رہتا ہے لیکن دل کے اندر ایک طوفان چھپائے ہے۔ بس یہی وہ ہیرو تھا جو 70 کی دہائی میں ان نوجوانوں کے لئے مشعل راہ بن کر چمکا جو آزادی کے بعد اپنی اقدار اور خوابوں کے ریزہ ریزہ ہونے سے بےچینی محسوس کر رہے تھے۔
’دیوار ‘ کا وجے ان نوجوانوں کے لئے مثال بن گیا جو بدعنوان سماج کے منافقانہ رویوں کا شکار ہوتے ہیں اور کسی بڑی سماجی تبدیلی کی تیاری کا انتظار کئے بغیر اپنی ذاتی کامیابی کے لئے سماج کے مد مقابل ہو جاتے ہیں اور اس کے لئے چاہے انہیں غیر قانونی کاموں کا ہی سہارا کیوں نہ لینا پڑے۔
ایک طرح سے ’اینگری ینگ مین ‘ کی شبیہ آزادی کے بعد ہندوستانی سماج کے خوابوں کے ٹوٹنے کی بھی عکاسی کرتی تھی۔ ایک شبیہ میں قید امیتابھ نے حالانکہ باکس آفس پر متعدد کامیاب فلمیں دیں لیکن وہ مسلسل اس سے باہر نکلنے کی بھی کوشش کرتے رہے۔ ’آلاپ‘، ’کبھی کبھی‘ اور ’سلسلہ ‘جیسی ہلکی رومانی فلمیں بھی انہوں نے کیں لیکن ان کی رومانی شبیہ زیادہ مقبول نہیں ہو پائی۔
1982 میں ’ قلی‘ فلم کی شوٹنگ کے دوران پیش آئے حادثہ نے امیتابھ بچن کی زندگی کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ سبھی لوگ یہ تصور کر چکے تھے کہ اب ان کا فلمی کیریرانجام کو پہنچ چکا ہے ۔ وہ اس حادثے کے بعد اپنی وہی شبیہ لے کر واپس لوٹے بھی تو زیادہ چل نہیں پائے کیوں کہ اس وقت تک سنجے دت، جیکی شراف اور انل کپور فلم انڈسٹری میں اپنا مقام بنا چکے تھے۔ تاہم ’اندھا قانون‘ میں ان کی طرف سے کی گئی زبردست کارکردگی نے ایک بار پھریہ ثابت کر دیا کہ امیتابھ کی ایننگ ابھی اختتام پزیر نہیں ہوئی ہے ۔
90 کی دہائی میں امیتابھ نے اپنی کمپنی اے بی سی ایل لانچ کی اور کچھ فلمیں بھی بنائیں جن میں ’تیرے میرے سپنے ‘ اہم ہے۔ اسی فلم کے ذریعہ ارشد وارثی فلم انڈسٹری میں متعارف ہوئے ۔ لیکن کمپنی دوالیا ہو گئی ۔ ایک بار پھر یہ محسوس ہونے لگا کہ امیتابھ کا کیریر اب واپسی نہیں کر پائے گا لیکن یہ امیتابھ کی خوبی ہے کہ انہوں نے بطور ایکٹر خود کو مسلسل بہتر بنایا ہے۔ وہ شاید تنہا ایسے کمرشیل ہندی فلموں کے ہیرو ہیں جس نے بہت آسانی سے خود کو عمر کے مطابق سنجیدہ کرداروں میں ڈھال لیا ہے۔ ایک انٹریو کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ وہ خود کو ایک خاص شبیہ کی قید سے آزاد محسوس کرتے ہیں کیوں کہ اب وہ نئے، چیلنجنگ اور تجرباتی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
’بلیک‘، ’چینی کم‘، ’نی شبد‘، ’پیکو‘اور ’پِنک‘والے امیتابھ شعلے اور دیوار والے امیتابھ سے ایک دم جدا ہیں لیکن بطور اداکار ان کی کشش آج بھی اتنی ہی مضبوط ہے ۔
امیتابھ بچن ایک اعلیٰ درجہ کے ایسے اداکار ہیں جومسلسل تبدیل ہوتے پس منظر میں خود کو نئے دورمیں ڈھالتا گیا اور اپنی کوششیں کرتے نہ تو وہ کبھی تھکا اور نہ کبھی ہارا تبھی تو اسے ’صدی کا عظیم ستارہ ‘کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 11 Oct 2017, 11:10 AM