کبھی الوداع نہ کہنا... کشور کمار کی برسی پر خصوصی پیشکش

کشور کمار اکثر کہا کرتے تھے کہ دودھ جلیبی کھائیں گے کھنڈوا میں بس جائیں گے لیكن ان کا یہ خواب ادھورا ہی رہ گیا اور 13 اکتوبر 1987 کو کشور کمار کو دل کا دورہ پڑا اور وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

زندگی کے انجانے سفر سے بے حد محبت کرنے والے ہندی سنیما کے عظیم گلوکار کشور کمار کی پیدائش مدھیہ پردیش کے کھنڈوا میں 04 اگست 1929 کو متوسط بنگالی خاندان میں ایڈوکیٹ کنجی لال گانگولی کے گھر میں ہوئی۔ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے شرارتی کشور کمار گانگولی عرف کشور کمار کا رجحان بچپن سے ہی باپ کے پیشے وکالت کی طرف نہ ہوکر موسیقی کی جانب تھا۔

عظیم اداکار اور گلوکار کے ایل سہگل کے نغموں سے متاثر کشور کمار انہی کی طرح گلوکار بننا چاہتے تھے۔ سہگل سے ملنے کی خواہش لے کر کشور کمار 18 سال کی عمر میں ممبئی پہنچے، لیکن ان کی خواہش پوری نہیں ہو پائی۔ اس وقت تک ان کے بڑے بھائی اشوک کمار بطور اداکار اپنی شناخت بنا چکے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ کشور ہیرو کے طور پر اپنی شناخت بنائیں لیکن خود کشور کمار اداکاری کے بجائے گلوکار بننا چاہتے تھے حالانکہ انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم کبھی کسی سے حاصل نہیں کی تھی۔ بالی ووڈ میں اشوک کمار کی شناخت کی وجہ سے کشور کمار کو بطور اداکار کام مل رہا تھا۔ اپنی خواہش کے باوجود انہوں نے اداکاری کرنا جاری رکھا۔ جن فلموں میں وہ بطور آرٹسٹ کام کیا کرتے تھے انہیں اس فلم میں گانے کا بھی موقع مل جایا کرتا تھا۔ کشور کمار کی آواز سہگل سے کافی حد تک ملتی جلتی تھی۔ بطور گلوکار سب سے پہلے انہیں سال 1948 میں بمبئی ٹاکیز کی فلم ضدی میں سہگل کے انداز میں ہی اداکار دیو آنند کے لیے ’’مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں‘‘ گانے کا موقع ملا۔

کشور کمار نے 1951 میں بطور اداکار فلم آندولن سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا لیکن اس فلم سے ناظرین کے درمیان وہ اپنی شناخت نہیں بنا سکے۔ سال 1953 میں ریلیز ہونے والی فلم لڑکی بطور اداکار ان کے کیریئر کی پہلی ہٹ فلم تھی۔

1958ء میں کشور کمار کو پہلی بار فلم ’’چلتی کا نام گاڑی‘‘ میں اداکاری کرنے کا موقع ملا۔ شائقین اس فلم میں اشوک کمار کو دیکھنے جاتے تھے لیکن لوٹتے وقت ان کے ذہن میں کشور کمار چھائے ہوئے ہوتے تھے۔ ابتدائی دور میں کشور کمار کی پہچان ایک مزاحیہ اداکار کے طور پر ہوئی تھی۔

فلم ’’پڑوسن‘‘ جیسی فلمیں آج بھی لوگوں کے ذہن پر چھائی ہوئی ہیں۔ 1964ء میں ’’دور گگن کی چھاوٴں میں‘‘ اور 1971ء میں فلم ’’دور کا راہی‘‘ کے بعد کشور دا کی مثالیں دی جانے لگیں۔ ادھر گلوکاری میں بھی وہ کامیاب ہوتے چلے گئے۔ اس دور میں جبکہ ہر طرف محمد رفیع اور منا ڈے کی گونج تھی کشور کمار کی آوارز کا جادو سب کو حیران کرگیا۔

اداکاری ، گلوکاری اور ہدایت کاری کے علاوہ کشور کمار کو شاعری کا بھی شوق تھا اور اپنا تخلص ’’کوی کشور دا‘‘ رکھا ہوا تھا۔ علاوہ ازیں وہ ایک کامیاب پینٹر اور آرٹسٹ بھی تھے۔ سال 1969 میں پروڈیوسر و ڈائریکٹر شکتی سامنت کی فلم آرادھنا کے ذریعے کشور کمار گائیکی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ بنے۔ کشور کمار کے گائے نغمے ’’میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تو ... اور روپ تیرا مستانہ ... ناظرین نے بہت پسند کئے اور ان نغموں کے لئے انہیں بطور گلوکار پہلافلم فیئر ایوارڈ بھی ملا۔ اس کے ساتھ ہی فلم آرادھنا کے ذریعے وہ ان اونچائیوں پر پہنچ گئے جس کے لئے وہ سپنوں کے شہر ممبئی آئے تھے۔

کشور کمار کو ان کے گائے نغموں کے لئے آٹھ مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انہوں نے اپنے پورے فلمی کیرئیر میں 600 سےبھی زائد ہندی فلموں کے نغمے گائے۔ انہوں نے بنگلہ، مراٹھی، آسامی، گجراتی، کنڑ، بھوجپوری اور اڑیا فلموں میں بھی اپنی دلکش آواز کے ذریعے ناظرین کو مسحور کیا۔

انہوں نے کئی اداکاروں کو اپنی آواز دی لیکن کچھ موقعوں پر محمد رفیع نے ان کے لئے نغمے گائے تھے۔ ان میں ’’ہمیں کوئی غم ہے تمہیں کوئی غم ہے محبت کا زرا نہیں ڈر، چلے ہو کہاں کر کے جی بے قرار، من باورا نس دن جائے، راگنی ہے داستاں تیری یہ زندگی اور عادت ہے سب کو سلام کرنا ‘‘ جیسے نغمات شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ محمد رفیع جو نغمے کشور کمار کے لئے گا تے تھے ان کی اجرت وہ صرف ایک روپیہ لیتے تھے۔

سال 1987 میں کشور کمار نے فیصلہ کیا کہ وہ فلموں سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد واپس اپنے گاؤں کھنڈوا لوٹ جائیں گے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ دودھ جلیبی کھائیں گے کھنڈوا میں بس جائیں گے لیكن ان کا یہ خواب ادھورا ہی رہ گیا اور 13 اکتوبر 1987 کو کشور کمار کو دل کا دورہ پڑا اور وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔