شتروگھن سنہا، ایک باوقار شخصیت کے مالک...حمرا قریشی

شتروگھن سنہا کے ساتھ ایک گھنٹہ طویل انٹرویو کے دوران میں سوچتی رہی کہ آخر انھوں نے بی جے پی میں شمولیت کا فیصلہ کیوں کیا، جبکہ وہ نظریاتی طور پر اس پارٹی میں فِٹ نہیں بیٹھتے

<div class="paragraphs"><p>شتروگھن سنہا / Getty Images</p></div>

شتروگھن سنہا / Getty Images

user

حمرا قریشی

شتروگھن سنہا ایک بار پھر سرخیوں میں ہیں، لیکن اس مرتبہ وجہ غیر سیاسی ہے۔ دراصل ان کی بیٹی سوناکشی رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئی ہیں، یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ شادی کی استقبالیہ تقریب میں شتروگھن اور ان کی شریک حیات انتہائی دلکش نظر آ رہے تھے۔ یہاں پر مجھے یہ بھی ظاہر کرنا چاہیے کہ غالباً شتروگھن سنہا اداکاری سے سیاست میں قدم رکھنے والے اداکاروں میں ایک ایسی باوقار شخصیت ہیں جو بالی ووڈ میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ برسوں پہلے جب بھی میں سنیل دَت کا انٹرویو کرتی تھی تو وہ مجھے ایک بات ضرور بتاتے تھے، وہ کہتے تھے کہ جب ان کے بیٹے سنجے دت کو گرفتار کیا گیا اور ان پر ٹاڈا کے مقدمات چلائے گئے تھے تو بالی ووڈ کے صرف 4 لوگ ان کے اور ان کے خاندان کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔ وہ بتاتے تھے ’’صرف دلیپ کمار، شتروگھن سنہا، راجندر کمار اور پران صاحب ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے تھے اور میری اور میرے خاندان کے حمایت کرتے تھے۔ جنوبی ہند فلم چیمبرز کے کچھ افراد بھی تھے، لیکن اور کوئی دوسرا نہیں تھا۔‘‘

برسوں بعد جب میں نے سائرہ بانو کا انٹرویو کیا تو انھوں نے بھی شتروگھن سنہا کے بارے میں کچھ اہم باتیں کہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ جب بھی کوئی مشکل وقت آتا تو شتروگھن سنہا وہاں موجود ہوتے ہیں۔ سائرہ بانو نے یہ بھی تذکرہ کیا کہ جب سنجو گرفتار کیا گیا تھا اور سنیل دَت کا خاندان مشکل وقت سے گزر رہا تھا تو دلیپ کمار کے ساتھ شتروگھن سنہا بھی ان کی ہمت افزائی میں کھڑے دکھائی دیتے تھے۔

یہاں میری شتروگھن سنہا سے ایک ملاقات کا تفصیلی تذکرہ مناسب معلوم پڑتا ہے۔ شتروگھن سنہا سے یہ ملاقات انٹرویو کے لیے ہوئی تھی۔ 1992 میں نئی دہلی میں یہ ملاقات ہوئی تھی، جب وہ نئی دہلی پارلیمانی حلقہ سے بی جے پی امیدوار کے طور پر انتخابی میدان میں کھڑے تھے۔ انھوں نے 1980 میں سیاست میں قدم رکھا اور بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ بعد ازاں 1992 میں انھوں نے انتخابی سیاست میں قدم رکھا جب نئی دہلی حلقہ کے ضمنی انتخاب میں ساتھی اداکار راجیش کھنہ کے خلاف کھڑے ہوئے۔ (حالانکہ وہ کانگریس امیدوار راجیش کھنہ سے تقریباً 25 ہزار ووٹوں سے ہار گئے۔)


جب 1992 میں شتروگھن سنہا کی رہائش کا پتہ لگانے کی کوشش کی تو یہ انتہائی مشکل ثابت ہوا۔ حالانکہ ایک بار جب ان کی تلاش ختم ہوئی تو باقی چیزیں مشکل نہیں تھیں۔ مجھے یہ معلوم کرنے میں پانچ دن لگ گئے تھے کہ وہ نئی دہلی میں کہاں رہتے ہیں اور ان کا فون نمبر کیا ہے۔ آخر کار ان کے بھائی ڈاکٹر لکھن سنہا نے انٹرویو کے لیے وقت دیا جو کہ سابقہ متنازعہ عمارت ’وہائٹ ہاؤس‘ (اس وقت منڈی ہاؤس کمپلیکس کے قریب موجود) میں موجود ان کے اپارٹمنٹ میں طے پایا۔

جیسے ہی میں مقررہ وقت پر وہاں پہنچی، لفٹ میں ہی شتروگھن سنہا سے ملاقات ہو گئی۔ لفٹ ہمیں اوپر کی طرف گیارہویں منزل تک لے گئی جہاں ان کا اپارٹمنٹ تھا۔ اس سے پہلے کہ میں اپنے سوالات شروع کرتی، میں ان کے کرتے پر پیلے رنگ کے بڑے بڑے نشان دیکھنے لگا۔ انھوں نے مجھے فوراً اس کی وجہ بتانی شروع کر دی اور کہا ’’ارے نہیں، اس زعفرانی اسکارف نے یہ نشان دے دیے ہیں... ویسے یہ بی جے پی کا اسکارف نہیں ہے بلکہ ایک ’سروپا‘ ہے جو مجھے گرودوارہ میں دیا گیا تھا...میں ابھی وہیں سے واپس آ رہا ہوں۔‘‘

شتروگھن سنہا کے ساتھ ایک گھنٹہ طویل انٹرویو کے دوران میں سوچتی رہی کہ آخر انھوں نے بی جے پی میں شمولیت کا فیصلہ کیوں کیا، جبکہ وہ نظریاتی طور پر اس پارٹی میں فِٹ نہیں بیٹھتے۔ میں نے سوال کر دیا کہ وہ بی جے پی کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کو دیکھتے ہوئے بھی اس پارٹی میں کیوں شامل ہوئے۔ جواب میں انھوں نے کہا کہ ’’فرقہ پرستی! دیکھو، میں فرقہ پرست نہیں ہوں۔ میرا ٹریک ریکارڈ دیکھ لیجیے...میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتا ہوں۔ میری پاکستان کے مرحوم وزیر اعظم جنرل ضیاء الحق سے اتنی دوستی رہی کہ انھوں نے اپنی ہر خاندانی تقریب میں مدعو کیا۔ اس کے علاوہ سعودیہ میں کچھ خاندان کے ساتھ بھی دوستانہ روابط ہیں... یہ میری ذاتی دوستیاں ہیں... ہندو، مسلم، عیسائی یہ سب میں نہیں مانتا۔ بس انسانیت پر یقین رکھتا ہوں۔‘‘

اگر واقعی میں وہ اس نظریۂ انسانیت پر یقین رکھتے ہیں تو پھر انھوں نے کسی دیگر پارٹی میں شمولیت کیوں اختیار نہیں کی، انھوں نے بی جے پی کا انتخاب کیوں کیا؟ کیا وہ اپنے وسیع النظر خیالات اور رواداری والے انداز کے ساتھ بی جے پی میں مسائل کا سامنا کر رہے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب میں شتروگھن کہتے ہیں ’’نہیں، نہیں... بھلا ایسا کیوں! وہ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں... پریس میں بہت سے میرے دوست ہیں جو میرے پاس آتے ہیں۔ وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ مجھے پسند کرتے ہیں، لیکن میری پارٹی کو پسند نہیں کرتے۔‘‘


وہ اپنا لیڈر کسے مانتے ہیں، اس سوال پر تھپکی مارتے ہوئے بے ساختہ جواب دیتے ہیں ’’میری بیوی۔ درحقیقت ہر شوہر کو مرغا بنایا جاتا ہے۔ کچھ ایسا قبول کرتے ہیں، کچھ نہیں، لیکن یہ سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ حالانکہ سنجیدگی سے کہوں تو پونم کے بغیر میں معذور ہوں۔‘‘ پھر وہ تفصیل سے بتاتے ہیں کہ پونم ہی ہیں جو ان کے کپڑوں اور زیب تن کیے جانے والے لباس کا فیصلہ کرتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’یہ کرتا بھی پونم نے ایک بوٹیک سے لیا، آج پہلی بار میں اسے پہن رہا ہوں... عام طور پر میں سادہ کپڑے پہنتا ہوں... میں رنگوں یا ڈیزائن یا کڑھائی یا نمائش والی چیزیں پہننے میں یقین نہیں رکھتا... مجھے نمائش قطعی پسند نہیں۔‘‘

جب انٹرویو دھیرے دھیرے آگے بڑھا تو میں نے ان سے یہ سوال بھی کیا کہ ایودھیا مندر اور بابری مسجد کے بارے میں وہ کیا سوچتے ہیں؟ جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ’’بصد احترام کہنا چاہوں گا کہ اگر کسی مسجد کو سعودی عرب یا پاکستان میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے تو یہاں کیوں نہیں؟ یقیناً ایسا ہمارے مسلم بھائیوں کی رضامندی سے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی خاطر کیا جانا چاہیے... بڑے بھائی کو دینا چاہیے۔‘‘

جب میں نے تبصرہ کیا کہ ’’اس معاملے میں یہاں بڑا بھائی اکثریتی برادری ہے‘‘، تو شتروگھن سنہا نے کہا ’’ہاں، ہاں... لیکن اگر اس مندر کی اہمیت ہندوؤں کے لیے مکہ یا مدینہ کی طرح ہے تو کیا مسلمان نہیں دے سکتے... فیض آباد اور اس کے آس پاس 26 دیگر مساجد ہیں، اور کوئی ان مسجدوں کو نہیں پوچھتا۔ صرف یہ ایک ہی مسجد ہے جس کے بارے میں بات ہو رہی ہے، کیونکہ یہ (ہندوؤں کے) عقیدہ کا معاملہ ہے۔‘‘

پھر میں نے کہا کہ ’’لیکن کہا جاتا ہے بی جے پی نے 30 دیگر مساجد کو مندروں میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔‘‘ جواب میں وہ کہتے ہیں ’’میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ صرف ایک کی بات میں کروں گا، مزید آگے نہیں... میں وعدہ کرتا ہوں... میں ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں۔‘‘ جب میں نے پوچھا کہ ’’چاہے آپ کا یہ وعدہ آپ کے سیاسی کیریئر یا عزائم کے لیے بہت مہنگا ثابت ہو؟‘‘ تو وہ جواب دیتے ہیں ’’ہاں، کسی بھی قیمت پر... میں اپنے وعدے پر ہمیشہ قائم رہوں گا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔