ساحر لدھیانوی اپنی شرطوں پر نغمہ لکھا کرتے تھے

تقریبا تین دہائی تک ہندی سنیما کو اپنی زبردست نغموں سے ناظرین کو مسحور کرنے والے ساحر لدھیانوی 59سال کی عمر میں25اکتوبر 1980کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے ۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

یو این آئی

ساحر لدھیانوی ہندی فلموں کے ایسے پہلے نغمہ نگار تھے جن کا نام ریڈیو سے نشر ہونے والے فرمائشی نغمہ میں دیا گیا۔ ساحر سے پہلے کسی نغمہ نگار کو ریڈیو سے نشر ہونے والے فرمائشی نغمہ میں اہمیت نہیں دی جاتی تھی ۔ ساحر نے اس کے لئے کافی جدو جہد کی جس کے بعد ریڈیو پر نشر نغموں میں گلوکار اور موسیقار کے ساتھ ساتھ نغمہ نگار کا نام بھی دیاجانے لگا، اس کے علاوہ وہ پہلے نغمہ نگار تھے جنہوں نے نغمہ نگاروں کے لئے رائیلٹی کے مطالبہ کو منوایا۔

آٹھ مارچ1921ء کو پنجاب کے لدھیانہ شہر میں ایک زمیندار خاندان میں پیدا ہونے والے ساحر کی زندگی کافی جد وجہد میں گزری۔ ساحر نے اپنی میٹرک تک کی تعلیم لدھیانہ کے خالصہ اسکول سے مکمل کی ۔ اس کے بعد وہ لاہور چلے آئے جہاں انہوں نے اپنی مزید تعلیم گورنمنٹ کالج سے مکمل کی۔ کالج کے پروگراموں میں وہ اپنی غزلیں اور نظمیں پڑھ کر سنایاکرتے تھے جس سے انہیں کافی شہرت حاصل ہوئی۔


مشہور پنجابی مصنفہ امرتا پرتم کالج میں ساحر کے ساتھ ہی پڑھتی تھی جوان کی غزلوں اور نظموں سے کافی متاثر ہوئیں اور ان سے محبت کرنے لگیں کچھ عرصے کے بعد ہی ساحر کالج سے نکال دئیے گئے۔ اس کی وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ امرتا پرتم کے والد کو ان کے اور ساحر کے تعلقات پر اعتراض تھا کیونکہ دونوں مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان دنوں ساحر کی مالی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی۔

ساحر 1943ء میں کالج سے نکال دئیے جانے کے بعد لاہور چلے گئے ، جہاں انہوں نے اپنا پہلا شعری مجموعہ تلخیاں مرتب کیا۔ تقریبا دو برسوں کی انتھک کوششوں کے بعد آخر کار ان کی محنت رنگ لائی اور تلخیاں کی اشاعت ہوئی ۔ اس درمیان ساحر ترقی پسند تحریک سے منسلک ہوگئے اور انہوں نے اداب لطیف شاہکار ، اور سویرا جیسی کئی مقبول اردو رسائل نکالے لیکن سویرا میں انقلابی خیالات کو دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے ان کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کردیا ۔ اس کے بعد وہ1950ء میں ممبئی آگئے ۔


ساحر نے1950میں ریلیز ہوئی فلم آزادی کی راہ پر میں اپنا پہلا نغمہ بدل رہی ہے زندگی لکھا لیکن فلم کامیاب نہیں ہوسکی ۔ سال1951میں ایس ڈی برمن کی دھم پر فلم نوجوان میں لکھے اپنے نغمے ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں کے بعد وہ نغمہ نگار کی حیثیت سے اپنی کچھ حد اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ ساحر نے خیام کی موسیقی میں بھی کئی سپرہٹ نغمے لکھے۔ سال1958میں آئی فلم پھر صبح ہوگی کے لئے راج کپور یہ چاہتے تھے کہ ان کے پسندیدہ موسیقار شنکر جے کشن اس کی موسیقی دیں جبکہ ساحر اس بات سے خوش نہیں تھے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلم میں موسیقی خیام کی ہی ہو۔ وہ صبح کبھی تو آئے گی جیسے نغمے کی کامیابی سے ساحر کا فیصلہ درست ثابت ہوا ۔ یہ گانا آج بھی کلاسیکی نغمے کے طور پر یادکیاجاتا ہے ۔

ساحر اپنی شرطوں پر گیت لکھا کرتے تھے ایک بار ایک فلم ساز نے نوشاد کی موسیقی میں انہیں نغمات لکھنے کی پیش کش کی ساحر کو جب اس بات کا علم ہوا کہ موسیقار نوشاد کو ان سے زیادہ معاوضہ دیاجارہا ہے تو انہوں نے پروڈیوسر کو معاہدہ ختم کرنے کو کہا ان کا کہنا تھا کہ نوشاد عظیم موسیقار ہیں لیکن دھنوں کو لفظ ہی وزنی بناتے ہیں لہذا ایک روپیہ ہی صحیح نغمہ نگار کو موسیقار سے زیادہ معاوضہ ملناچاہئے۔


گرودت کی فلم پیاسا ساحر کے فلمی کیرئیرکی اہم فلم ثابت ہوئی ۔ فلم کی ریلیز کے دوران عجیب و غریب نظارہ دکھائی دیا ۔ ممبئی کے منروا ٹاکیز میں جب یہ فلم دکھائی جارہی تھی تب جیسے ہی جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں بجا تمام ناظرین اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑے ہوگئے اور گانے کے اختتام تک تالی بجاتے رہے ۔ بعد میں ناظرین کے مطالبے پر اسے تین مرتبہ دکھایا گیا۔ فلم انڈسٹری کی تاریخ میں شاید پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا ۔ ساحر اپنے فلمی کیرئیر میں دوبار بہترین نغمہ نگار کی حیثیت سے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازے گئے ۔ تقریبا تین دہائی تک ہندی سنیما کو اپنی زبردست نغموں سے ناظرین کو مسحور کرنے والے ساحر لدھیانوی59سال کی عمر میں25اکتوبر 1980کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔