سالگرہ اسپیشل: ریکھا اور امیتابھ اپنے دور کے چمکتے ستارے
آج ریکھا کی سالگرہ ہے اور کل امیتابھ بچن کی، ان کی قربت نے دونوں کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا اور دونوں کی اداکاری میں غضب کا نکھار آنا شروع ہوا۔ پیش ہے بالی وڈ کے ان دو ستاروں پر مبنی ایک خصوصی رپورٹ۔
وہ موٹی تھی، کالی تھی، ناک-نقش بھی اوسط، عمر صفر 13 سال۔ ایسے میں فلم انڈسٹری میں اپنی جگہ بنانا بہت مشکل تھا۔ لیکن ضرورتوں کا تقاضہ تھا اس لئے کام تو کرنا ہی تھا۔ 1966 میں تیلگو فلم سے شروعات کی۔ جیمنی گنیشن جیسے اداکار ہونے کے باوجود ریکھا کو فلم انڈسٹری میں ان تمام چیلنجوں سے دو چار ہونا پڑا جن کا کسی بھی عام لڑکی کو اس انڈسٹری میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔
1969 میں بسوجیت کے ساتھ ہندی فلم ’انجانا سفر‘ سے بطور ہیروئن ریکھا نے آغاز کیا۔ بعد میں یہ فلم 1969 میں ’دو شکاری ‘ کے نام سے ریلیز ہوئی اور ریکھا نے یہ دعویٰ کیا کہ فلم کا متنازع کسنگ سین جس طرح فلمایا گیا اس کی معلومات انہیں نہیں تھی۔ 1970 میں ان کی فلم آئی ’ساون بھادو‘ جس کو بالی وڈ کی ان کی پہلی فلم تصور کی جاتی ہے۔ اس فلم کے بعد وہ راتوں و رات اسٹار بن گئیں لیکن یہ ان کی جد و جہد کی شروعات بھر تھی اور اس کے بعد عرصہ دراز تک انہوں نے جو فلمیں کیں ان میں وہ محض ایک ’گلیمر گرل ‘ کے طور پر ہی نظر آئیں۔ ایک دقت اور بھی تھی اور وہ یہ ہےکہ انہیں ہندی نہیں آتی تھی۔ ایک تو ہندی بولنے کے لئے انہیں مشقت کرنی پڑتی تھی دوسرے ان کی سانولی رنگت اور موٹا ہونے کے سبب انہیں نکارا جاتا رہا۔
1976 میں ایک فلم آئی ’دو انجانے ‘۔ اسی کے ذریعہ امیتابھ بچن اور ریکھا قریب آئے اور یہی وہ دور تھا جب دونوں اداکاروں نے اپنی قابلیت میں اضافہ کیا اور دونوں کی اداکاری میں غضب کا نکھار آنا شروع ہوا۔ آج ریکھا اور امیتابھ چاہے اپنے تعلقات کے حوالے سے کچھ بھی کہیں، یا نہ کہیں، ان کے ذاتی تعلقات چاہے جیسے بھی رہے ہوں اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دونوں کی اداکاری کو تقویت ایک دوسرے کے ساتھ نے ہی دی۔
رقص کی تو ریکھا پہلے سے ہی ماہر تھیں بعد میں انہوں نے تلفظ اور انداز بیاں پر محنت کر کے اپنی اداکاری کو بلندیوں تک پہنچایا ۔
امیتابھ نے بھی اپنی فلمی زندگی کی شروعات 1969 میں ہی کی تھی۔ ان کی پہلی فلم ’سات ہندوستانی‘ مقبول تو بہت ہوئی لیکن باکس آفس پر کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ ستر کی دہائی امیتابھ کے لئے کافی اہم رہی۔ آنند، زنجیر، شعلے، دیوار جیسی یکے بعد دیگرے ہٹ فلمیں دے کر امیتابھ نے کامیابی کا سفر طے کیا اور امیتابھ بچن کو ’اینگری ینگ مین‘ کے لقب سے نوازا جانے لگا۔ ان کی وہ آواز جسے آل انڈیا ریڈیو (اے آئی آ ر) نے خارج کر دیا تھا وہ لوگوں کے دل و دماغ پر جادو کی طرح طاری ہو گئی۔ ان کا تلفظ اس وقت کے کسی بھی ہیرو سے کہیں بہتر تھا۔ ریکھا کی طرح امیتابھ کو بھی بے حد لمبے قد اور اوسط شکل اور گندمی رنگت کی وجہ سے ’ہیرو میٹیریل‘ نہیں مانا جاتا تھا۔ لیکن انہوں نے اپنے انداز بیاں اور آواز سے لوگوں کے دلوں کو جیتا۔
یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی صحبت سے اپنی آواز اور ڈائیلاگ ڈلیوری کو اتنا مضبوط اور مؤثر بنا پائے۔ وہ چاہے مقدر کا سکندر کی ’ظہرا‘ ہو یا پھر ’امراؤ جان کی امراؤ‘، ریکھا کی ڈائیلاگ ڈلیوری آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔
1978 میں مانک چٹرجی کی ہدایت میں فلم’گھر‘ آئی جس میں انہوں نے ریپ سے متاثرہ کا کردار ادا کیا۔ یہ اپنے وقت سے آگے کی فلم تھی اور ریکھا نے اپنی حساس اداکاری کے ساتھ ہندی فلموں میں ایک پختہ مقام حاصل کر لیا۔ رفتہ رفتہ وہ ان چند ہیروئنوں میں شامل ہو گئیں جو ہیروئن پر مبنی فلمیں اپنے بوتے چلا لیتی تھیں۔ ریکھا کا باسو بھٹاچاریا کی فلم ’آستھا ‘ میں اہم کردار ادا کرنا بھی ایک چیلنجنگ فیصلہ تھا۔ انہوں نے ایک ایسی گھریلو شادی شدہ خاتون کا مشکل کردار بخوبی ادا کیا جو ایک ’سیکس ورکر‘ کے طور پر بھی کام کرتی ہے اور اپنے اس کام کے ذریعہ وہ اپنی شادی شدہ زندگی میں بھی نئی راہیں تلاش کرتی ہے، ساتھ ہی سماج میں پھیلی مادہ پرستی کے سبب پیدا ہوئے خلاء سے بھی مقابلہ کرتی ہے۔ ریکھا کی یہ فلم انقلابی ثابت ہوئی تھی کیوں کہ یہاں بیوی کا کردار روایتی قربانی اور عقائد جیسے اصولوں کے مطابق نہیں تھا۔
اپنی ذاتی زندگی میں آئے طوفان سے مقابلہ کر کے بھی ریکھا اور امیتابھ دونوں آگے بڑھتے رہے۔ امیتابھ ’قلی‘ کی شوٹنگ کے دوران شدید طور پرزخمی ہو کر کچھ برس فلموں سے باہر ہوئے توریکھا 1990 میں اپنے شوہر مکیش اگروال کی خودکشی کے بعد خاموش ہو گئیں۔ لیکن وہ اس کے بعد چند فلموں میں دکھائی دیں اور انہوں نے ’کام سوتر‘ اور ’لجّا‘ جیسی فلموں سے ایک بار پھر اپنی خاص جگہ بنائی۔
امیتابھ بچن بھی بیماری کے بعد ’اینگری ینگ مین ‘ کی شبیہ کو زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رکھ پائے اور انہوں نے خود کو بدلتے وقت کے مطابق ڈھال لیا۔ ان کی کمپنی اے بی سی ایل دیوالیہ ہو گئی لیکن انہوں نے کچھ برس کے بعد ’بڑے میاں چھوٹے میاں‘ میں کام کر کے نئے سفر کا آغاز کیا۔ اس کے بعد انہوں نے بلیک، باغبان، کبھی خوشی کبھی غم، محبتیں، سرکار اور بنٹی اور ببلی جیسی فلموں میں کام کیا اور نئے دور میں بھی اپنی ایک خاص پہچان بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ آج وہ فلمی دنیا میں ہی نہیں بلکہ ٹی وی کے بھی ایک بلند و بالا اور مقبول اداکار ہیں۔
امیتابھ اور ریکھا دونوں ہی ہمارے تیزی سے بدلتے سماج میں ’لا زوال ‘جذبہ کی علامت ہیں۔ مسلسل ناکامیوں، تنازعات اور ذاتی پریشانیوں کے بیچ وہ ہر بار اٹھ کر کھڑے ہو تے رہے۔ یہ دونوں اس بات کی جیتی جاگتی مثال ہیں کہ دو افراد اگر ایک اچھے رشتہ میں ہوں (چاہے وہ رشتہ دنیاوی روایت سےپرے ہی کیوں نہ ہو) تو ان کی شخصیت اور قابلیت نکھر کر سامنے آتی ہے۔
ان دونوں کی قابلیت اور حوصلہ کو سلام ۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 10 Oct 2017, 12:34 PM