راج کپور: ایک تھپڑ کی بدولت بن گئے سب سے بڑے شو مین... برتھ ڈے اسپیشل
راج کپور ایک آزاد خیال اور وسیع الذہن فنکار تھے۔ہندستانی فلمیں رہتی دنیا تک ان کی احسان مند رہیں گی ۔آج ان فلموں کو جو مقام حاصل ہے اس میں ان کا بہت بڑا کردار ہے۔
ممبئی: ہندی سینما کے اگر عظیم ترین ہدایت کاروں کی فہرست مرتب کی جائے تو یقینا ہرکسی کی فہرست مختلف ہوگی مگر چند ایسے نام جنہیں شاید ہی کوئی نظر انداز کرپائے۔ان میں سے ایک ہیں ہندی سینما کے عظیم ترین شو مین راج کپور۔ ہندوستانی سنیما کو بہترین فلمیں دینے والے پہلے شو مین راج کپور14 دسمبر 1924 کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ 1929 میں ان کا خاندان ممبئی منتقل ہوگیا۔کی خواہش بچپن سے ہی اداکار بننے کی تھی۔ میٹرک کے بعد انہوں نے اپنے والد پرتھوی راج کپور سے کہا کہ میں مزید تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہتا، میں فلموں میں کام کرنا چاہتا ہوں، فلمیں بنانا چاہتا ہوں۔ اور یہی شوق انہیں انڈین نیشنل تھیٹر ممبئی پہنچانے کا سبب بنا ۔ .. 1932 کو محض 8 سال کی عمر میں انہیں “کھلونا گاڑی” نام کے اسٹیج ڈرامے میں پرفارمنس دکھانے کا موقع ملااپنی جاندار اداکاری کے باعث وہ جلد ہی تھیٹر میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب رہے۔بالی ووڈ کے اس عظیم شو مین نے اپنے فلمی سفر کا آغاز چائلڈ اداکار کے طور پر سال 1935 میں کیا ۔
ان کے شوق اور لگن کو دیکھ کر کیدار شرما نے 1946 میں انہیں اپنے ساتھ رکھ لیا۔ کیدار شرما نے کیمرے کے آگے اور پیچھے دونوں دنیاؤں کے اسرار ان پر منکشف کیے۔ اسی دوران ایک دن مسلسل بے دھیانی کے باعث وہ غلطیوں پر غلطیاں کیے جارہے تھے استاد کا پارہ چڑھ گیا اور انہوں نے سب کے سامنے شاگرد کو تھپڑ ماردیا….اپنی کامیابی کے دنوں میں راج کپور نے اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ آج میں جہاں ہوں اس تھپڑ کی بدولت ہوں۔
کیدار شرما نے اورینٹ پکچر کے بینر تلے 1947 میں راج کپور اور مدھو بالا کو لے کر فلم “نیل کمل” بنائی۔ یہ فلم ان دونوں فنکاروں کی پہلی فلم تھی مگر یہ فلم شائقین کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ راج کپور نے اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کیلئے 1948 میں محض 24 سال کی عمر میں “آر.کے فلمز” کےبینر تلے .نرگس کو لے کر فلم “آگ” بنائی اور یہیں سے ہدایت کاری کا آغاز کیا۔ یہ فلم فن کی کسوٹی پر کھری اتری۔ انہوں نے اپنی ایک ایسی ٹیم بنائی جس نے ھندی سینما کا رنگ ہی بدل دیا۔ موسیقار شنکر جے کشن،کیمرہ مین رادھو کرماکر، نغمہ نگار شیلیندر اور حسرت جے پوری , ہیروئن نرگس ،گلوکارہ لتا منگیشکر اور گلوکار مکیش،اسکرپٹ رائٹر اندر راج آنند اور خواجہ احمد عباس ان کی ٹیم میں شامل رہے۔
سال 1952 میں ریلیز ہونے والی فلم ’آوارہ‘ راج کپور کے کیرئر کی اہم فلم ثابت ہوئی۔ فلم کی کامیابی نے راج کپور کو ہندوستان کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی شہرت بھی دلائی۔ فلم کا ٹائٹل سونگ ’آوارہ ہوں‘ملک و بیرون ملک کافی مقبول ہوا اور اس فلم نے ایک اور سدا بہار اعزاز حاصل کرلیا ہے۔ اسے شہرہ آفاق امریکی رسالے ”ٹائم“ نے 1923ء سے اب تک بننے والی”100 سدا بہار اور عظیم “ فلموں کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔”آوارہ“ راج کپور اور نرگس دت کی ایسی فلم ہے جسے بالی ووڈ فلموں کی 100سالہ تاریخ میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ مضبوط کہانی، عمدہ ڈائریکشن، حقیقت سے قریب تر اداکاری اور دلکش گیتوں و دھنوں سے سجی اس فلم کا سحر آج بھی روز اول کی طرح فلم بینوں کے دلوں پر چھایا ہوا ہے ۔ حقیقت میں اس فلم کو جن دو چیزوں نے فن کی دنیا میں امر کیا وہ تھے اس کے خوب صورت گانے اور لازوال دھنیں۔ آوارہ کی کہانی تحریر کی تھی خواجہ احمد عباس نے جو افسانے اور کہانی کی دنیا کا بہت روشن نام تھا۔
فلم “آوارہ” میں پہلی دفعہ ھندی سینما میں ڈریم سیکوینس کی تکنیک کو متعارف کیا گیا جو ان کی فنی صلاحیتوں کی دلیل ہے ۔اس فلم کی ہر دلعزیزی کا یہ عالم تھا کہ پنڈت نہرو , خروشچیف اور چیئرمین ماؤ جیسے رہنماؤں نے اس کو دیکھا اور سراہا۔ انہوں نے صرف فلمیں نہیں بنائیں ،ہندوستان کو دریافت کیا۔اگر وہ صرف اداکاری کرتے تو راج کپور ہوتے مگر وہ خالق تھے ، ایک ذہین اور مستقبل بین خالق ، کیمرے کے فن سے آشنا۔انہوں نے کیمرے کے ذریعے تمثیلی انداز میں سماجی و معاشی ناہمواریوں،صنفی و جنسی مسائل کا گہرا تجزیہ پیش کیا۔نچلے طبقے کے دکھوں،درمیانے طبقے کی موقع پرستی اور بالائی طبقے کی خباثت کو انہوں نے ایک نئے ڈھنگ سے دکھایا جو صرف انہی کا خاصہ ہے۔ راج کپور کی عظمت ہی یہی ہے کہ وہ کیمرے کے ذریعے دلوں میں اترنے اور اپنی بات پہنچانے کے فن میں منفر د تھے۔
راج کپور کی جوڑی اداکارہ نرگس کے ساتھ کافی پسند کی گئی۔ دونوں کی جوڑی آگ، انداز، جان پہچان، آوارہ، انہونی، آشیانہ، انبر، آہ، دھن، پانی، شری 420م جاگتے رہو اور چوری چوری میں نظر آئی۔ سال 1970 میں راج کپور نے فلم میرا نام جوکر کا پروڈکشن کیا ۔ یہ فلم پوری طرح مسترد کردی گئی اس کی ناکامی سے راج کپور کو کافی صدمہ ہوا۔ انہیں اس فلم سے کافی مالی نقصان بھی ہوا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ اگر وہ کوئی فلم بناتے ہیں تو اس میں وہ خود اداکاری نہیں کریں گے۔
راج کپور ایک آزاد خیال اور وسیع الذہن فنکار تھے۔ہندستانی فلمیں رہتی دنیا تک ان کی احسان مند رہیں گی ۔آج ان فلموں کو جو مقام حاصل ہے اس میں ان کا بہت بڑا کردار ہے۔ وہ ہندی فلموں کی آبرو سمجھے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ راج کپورکی فلموں کو ان کی موت کے کئی برس بعد بھی آج تک اعزازات سے نوازا جارہا ہے۔ راج کپور کو اپنے فلمی سفر کے دوران کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ ان میں سال 1971 میں پدم بھوشن اور سال 1987 میں ہندی فلموں کے سب سے بڑے اعزاز دادا صاحب پھالکے سے نوازا گیا۔ اداکار کے طور پر انہیں دو بار جبکہ بطور ہدایت انہیں چار بار فلم فیئر ایواڑ سے سرفراز کیاگیا۔ سال 1985 کی فلم رام تیری گنگا میلی ان کی ہدایت کاری میں بننے والی آخری فلم تھی۔ اس کے بعد وہ اپنے ڈریم پروجیکٹ حنا کی فلمسازی میں مصروف ہوگئے لیکن ان کی زندگی میں ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ۔استھما کا مرض لاحق ہونے کی وجہ سے 2 جون 1988 کو بالی وڈ کا یہ شو مین اس دنیا کو الوداع کہہ گیا۔
کل کھیل میں ہم ہوں نہ ہوں
گردش میں تارے رہیں گے سدا
ڈھونڈھو گے تم، ڈھونڈھیں گے ہم
پر ہم تمہارے رہیں گے سدا
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔