بالی ووڈ کے حقیقی ویلن تھے ’پران‘... خصوصی پیشکش
ایسے دور میں جب ہیرو کی اہمیت بہت زیادہ ہوا کرتی تھی، پران ایک ایسے اداکار بن کر ابھرے جنہوں نے ویلن کے کردار کو بھی اتنی ہی اہمیت کا حامل بنادیا جتنے کہ مرکزی کردار میں ہیرو اور ہیروئن ہوتے تھے۔
مشہور اداکار پران نے پچاس اور ستر کی دہائی کے درمیان فلم انڈسٹری میں بطور ویلن اپنی الگ شناخت بنائی ،وہ واحد ایسے اداکار تھے جنہوں نے اکیلے ہی فلم انڈسٹری میں منفی کردار اداکئے اور اس شعبہ میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ جس فلم میں پران ہوتے اسے دیکھنے کے لئے لوگوں کی بھیڑ لگ جایا کرتی تھی۔ان کے ذریعہ ادا کئے گئے ہر رول کو دیکھ ایسا لگتا ہے کہ وہ رول صرف پران ہی ادا کرسکتے تھے۔ اس دور میں جب ہیرو اور ہیروئن کی اہمیت بہت زیادہ ہوا کرتی تھی ایسے میں پران ایک ایسے اداکار بن کر ابھرے جنہوں نے ویلن کے رول کو بھی اتنی ہی اہمیت کا حامل بنادیا جتنے کہ مرکزی کردار میں ہیرو اور ہیروئن ہوا کرتے تھے۔فلم انڈسٹری میں ویلن کا دوسرا نام پران بن کر ابھرا۔
فلم انڈسٹری کے مشہور ویلن پران کے پردے پر آتے ہی ان کے مداحوں کی زبان پر ان کے مکالمے آنے لگتے تھے۔پران کے ذریعہ ادا کئے گئے ہر کردار کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ انہوں نے جتنی بھی فلموں میں اداکاری کی ان میں ہر کردار کو ایک الگ انداز سے شائقین کے سامنے پیش کیا۔بطور ویلن پران کی اداکاری میں یکسانیت کبھی نہیں دیکھی گئی۔یہی نہیں جتنی محنت وہ کردار کے ساتھ کرتے تھے اتنی ہی محنت وہ مکالموں کے ادائیگی کے ساتھ بھی کرتے تھے،ہر کردار کے ساتھ ان کے مکالمے ادا کرنے کا انداز بھی کردار کی مناسبت سے بدل جاتا تھا۔
ایک اچھے ویلن کی پہچان یہی ہے کہ شائقین پردے پر پیش کی گئی اس کی برائی سے نفرت کریں ،اس کے ذریعہ پیش کئے گئے منفی کردار کو برا کہیں اور پران ہر بار صدر فیصد اس میں کامیاب ہوئے۔جب ہیرو پران کو مارتا تو شائقین خوش ہوتے یعنی ثابت ہے کہ بطور ویلن پران اپنی اداکاری میں کامیاب رہے۔اس کی وجہ یہی تھی کہ پران ہر کردار میں ڈوب جایا کرتے تھے۔ان کا لباس ،انداز طورطریقے سب اچانک کردار میں آتے ہی بدل جاتے تھے۔بطور ویلن پران کی شبیہ ایسی بن گئی تھی کہ شائقین انہیں فلم میں منفی اداکاری پر دھتکارنے لگتے تھے،اتنا ہی نہیں پران بڑی بری نظر سے دیکھا جاتا تھا اور شاید ہی ایسا کوئی گھر ہو جہاں بچے کا نام پران رکھا گیا ہو۔ ہندی فلموں میں پران کے آنے کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔پران کی پیدائش 12فروری 1920کودہلی میں ایک متوسط خاندان میں ہوئی تھی۔ان کے والد کیول کرشن سکند سرکاری ٹھیکے دار تھے۔ان کی کمپنی سڑکیں اورپل بنانے کے ٹھیکے لیا کرتی تھی۔تعلیم پوری کرنے کے بعد پران اپنے والد کے کام میں ہاتھ بٹانے لگے۔
ایک دن پان کی دکان پران کی ملاقات لاہور کے مشہور اسکرپٹ رائٹر ولی محمد سے ہوئی۔ولی محمد نے پران کو دیکھ انہیں فلموں میں آنے کی تجویز دی۔اس وقت پران نے ولی کے مشورے پر توجہ نہیں دی لیکن ان کے بار بار کہنے پروہ تیار ہوگئے۔ فلم یملا جٹ سے پران نے اپنے فلمی کریئر کی شروعات کی۔فلم کی کامیابی کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ اگر وہ فلم انڈسٹری میں اپنا کریئر بنائیں زیادہ شہرت حاصل کرسکتے ہیں۔اسی دوران ہندوستان-پاکستان کے تقسیم ہونے کے بعد پران لاہور چھوڑ کر ممبئی آگئے۔اس دوران انہوں نے تقریباً 22فلموں میں کام کیا اور ان کی فلمیں کامیاب بھی ہوئیں لیکن ایسا محسوس ہوا کہ ہیرو کے بجائے ویلن کے طورپر فلم انڈسٹری میں ان کا مستقبل زیادہ محفوظ اور روشن رہے گا۔اور ان کایہ خیال صحیح بھی ثابت ہوا۔
سال 1948 میں انہیں بامبے ٹاکیز کے تحت بنائی گئی فلم ضدی میں بطور ریلن کام کرنے کا موقع ملا۔فلم کی کامیابی کے بعد پران نے طے کرلی اکہ وہ بطور ویلن ہی انڈسٹری میں اپنی پہچان بنائیں گےاور اس کے بعد تقریباً چار دہائی تک پران نے بطور ویلن شائقین کی بھرپور تفریخ کی۔1958میں ریلیز فلم عدالت میں انہوں نے اتنی زبردست اداکاری کی کہ خواتین سنیما ہال سے بھاگ گئیں اور شائقین کو پسینے آگئے۔ ستر کی دہائی میں پران ویلن کے رول سے نکل کر دوسرے کردار پانے کی کوشش میں لگ گئے۔1967میں فلم ساز اور ہدایت کار منوج کمار نے اپنی فلم اپکار میں پران کو ملنگ کاکا کا ایک رول دیا جو پران کے فلمی کریئر میں سنگ میل ثابت ہوا۔انہوں نے اس رول کو اتنی شدت سے ادا کیا کہ لوگ ان کی ویلن کی شبیہ کو بھول گئےاس فلم کی کامیابی کے بعد پران کئی زبردست رول ادا کئے۔
پران کی سوانح حیات بھی لکھی جاچکی ہے ،جس کا ٹائٹل ’اینڈپران‘رکھا گیا ہے۔کتاب یہ ٹائٹل اس لئے رکھاگیا ہے کیونکہ زیادہ تر فلموں میں ان کا نام سبھی اداکاروں کےبعد سب سے آخر میں ’’اور پران‘ لکھا ہوا آتا تھا۔کبھی کبھی ان کا نام اس طرح پیش کیا جاتا تھا’ایبو آل پران‘۔انہوں نے اپنے چار دہائی سے بھی زیادہ لمبے کریئرمیں 350فلموں میں اپنی اداکاری کا جوہر دکھایا۔انہیں اپنی زبردست اداکاری کےلئے تین بار بہترین کو ایکٹر کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔2013میں انہیں فلم انڈسٹری کا سب سے اہم اعزاز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیاتھا۔ ایک زمانے میں پران کو فلم کے ہیرو سے بھی زیادہ فیس دی جاتی تھی۔ڈان فلم میں کام کرنے کےلئے پران کو امیتابھ بچن سے زیادہ فیس دی گئی تھی۔ اپنی زبردست اداکاری سے کے دم پر فلم انڈسٹری پر راج کرنے والے پران 12جولائی 2013کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔