فلم ریویو: ’اومیرتا‘ بدنامِ زمانہ عمر سعید شیخ کی بہترین پردہ کشی
’اومیرتا‘ فلم دیکھنا ایک خوشنما احساس تھا۔ یہ فلم عام ہندی فلموں کی طرح قطعی نہیں۔ اس میں کوئی ہیروئن نہیں ہے، نہ ہی ہیروئن کی ضرورت ہے۔
فلم کا نام عجیب ہے۔ بعد میں احساس ہوا کہ یہ بہت سوچ سمجھ کر رکھا گیا نام ہے۔ ’اومیرتا‘ اطالوی لفظ ہے جس کے معنی ہے مافیا کے درمیان ایک ایسی خاموشی جو مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے اختیار کی جاتی ہے۔ اسے پولس کو ثبوت دینے کے لیے مدد نہ کرنا بھی سمجھا جاتا ہے۔ جیسا کہ فلم پبلسٹی کے دوران مشتہر کیا گیا تھا اس کا موضوع پیچیدہ ہے۔ کہانی بدنام زمانہ دہشت گرد عمر سعید شیخ کے چاروں طرف گھومتی ہے۔ فلم دیکھنے سے پہلے من میں یہی خیال تھا کہ ’اومیرتا‘ بھی عام ہندی کمرشیل فلموں کی طرح ہوگی جس میں ’بھارت ماتا کی جے‘ کا نعرہ ہوگا جو کانوں کو چبھے گا اور شور پیدا کرے گا۔ صرف ’شاہد‘ کے ہدایت کار ہنسل مہتا کا نام ہی کچھ امید لیے تھا۔ لیکن ’اومیرتا‘ بالکل الگ نکلی جو کہ ایک خوشنما احساس تھا۔ یہ فلم عام ہندی فلموں کی طرح قطعی نہیں۔ اس میں کوئی ہیروئن نہیں ہے، نہ ہی ہیروئن کی ضرورت ہے۔ جس طرح سے عمر سعید شیخ کے کردار کو ہینڈل کیا گیا ہے وہ اپنے آپ میں ایک ہنرمند ہدایت کار کی خوبی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ بات بھی اپیل کرتی ہے کہ جو فلم ایک ’کوڈ آف سائلنس‘ کی بات کر رہی ہے اس کی شروعات چیخوں سے ہوتی ہے۔
لگاتار حال اور ماضی کے درمیان کَٹس کی سطح پر کہانی آگے بڑھتی ہے جس کے بیچ میں ان دہشت گردانہ جملوں کی نیوز کلپنگس بھی جڑی ہے جن کے لیے عمر ذمہ دار تھا۔ وہ ان تینوں دہشت گردوں میں سے تھا جسے انڈین ائیر لائنس 814 کے مغوی مسافروں کے بدلے میں 1999 میں چھوڑا گیا تھا۔ اس کے بعد عمر کو 2002 میں وال اسٹریٹ جرنل کے صحافی ڈینیل پرل کے اغوا اور قتل کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا اور بعد میں پاکستان کے دہشت گرد مخالف اسپیشل کورٹ نے اس کے لیے اسے موت کی سزا دی۔ وہ آج بھی جیل میں بند اپنی عرضی پر سماعت کا انتظار کر رہا ہے۔ عمر ایک پہیلی نما کردار لگتا ہے جس کے بارے میں پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف نے اپنی خودنوشت ’اِن دی لائن آف فائر‘ میں تحریر کیا ہے کہ وہ دراصل برطانیہ کے خفیہ محکمہ ایم آئی 6 کا حصہ تھا جسے انھوں نے اپنے کام کے لیے بالکن حلقہ میں بھیجا اور وہ بعد میں ان کے مخالف گروہ سے جڑ گیا۔
بہر حال، عمر کی پیدائش پاکستان میں ہوئی تھی اور اس کی پرورش برطانیہ میں جہاں وہ معروف لندن اسکول آف اکونومکس کا اسٹوڈنٹ تھا۔ لیکن بعد میں وہ بدنام زمانہ دہشت گرد میں تبدیل ہو گیا۔ یہ فلم ایک نوجوان اور حساس عمر کی کہانی ظاہر کرتی ہے جو بوسنیا میں مسلمانوں پر ہو رہے مظالم سے بہت بے چین ہو اٹھتا ہے، اپنے طبقے کی مدد کرنا چاہتا ہے لیکن اسے تربیت کے لیے افغانستان بھیج دیا جاتا ہے اور وہ وہیں سے دہشت گردانہ سرگرمیوں کو انجام دینا شروع کردیتا ہے۔ راج کمار راؤ ایک قابل اداکار ہیں اور ایک حساس نوجوان کے دہشت گرد میں تبدیل ہو جانے کے پورے عمل کو بہت اثردار طریقے سے پردے پر اتار پائے ہیں۔ وہ عمر کے دونوں پہلوؤں کی تصویر کشی بہت گہرائی سے کرتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ ایک پڑھا لکھا نفیس مسلم نوجوان ہے جو اچھے برطانوی لہجے میں انگریزی بولتا ہے۔ دوسری طرف وہ کیفیت سے خالی چہرے کے ساتھ ساتھ وحشی دہشت گرد بھی ہے جس کا صرف ایک مقصد ہے، اپنے طبقہ پر دنیا بھر میں ہو رہی ’ناانصافی اور مظالم‘ کا بدلہ لینا۔
ہنسل مہتا نے ایک ہنرمند ہدایت کار کے طور پر اپنی پہچان بنائی ہے۔ وہ حساس موضوعات اور ایشوز پر فلم بناتے رہے ہیں جن کے کردار معمول سے ہٹ کر اپنی خاص پہچان لیے ہوتے ہیں۔ ان میں گرے شیڈس ہیں اور کثیر جہتی شخصیت بھی۔ لیکن عمر کے کردار کو دکھلانا بہت پیچیدہ اور چیلنج بھرا کام تھا کیونکہ دہشت گردی جیسے نازک موضوع پر کچھ بھی تیار کرنے کے عمل میں ہم کسی ایک کی طرف جھکنے کی کشش کا شکار ہو ہی جاتے ہیں۔ اور یہی بات ہے جس میں وہ کامیاب رہے ہیں۔ اپنے اہم کردار کو وہ تقریباً ایک گہری اور تیز غیر جانبداری کے ساتھ سامنے رکھتے ہیں۔ ان کے رکے ہوئے مِڈ شاٹس تقریباً خوفناک لگتے ہیں، جیسے پردے پر کچھ بے حد ناخوشگور ہونے والا ہو۔ اور جیسے ہی وہ شاٹ ختم ہوتا ہے تو آپ راحت محسوس کرتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ خاص طور سے عمر کا ایک اندھیرے سے کمرے میں مغوی ڈینیل سے ڈائیلاگ بے حد اثردار ہے۔ کمرے کا اندھیرا اور عمر و ڈینیل کے کلوز شاٹ بغیر کسی بیک گراؤنڈ موسیقی کے بہت اثرانداز طریقے سے عمر کے وحشی پن اور ڈینیل کی ہمت کو ظاہر کرتے ہیں۔
جب عمر ڈینیل کی لاش کو کاٹتا ہے تو صرف ٹارچ کی لائٹنگ کا استعمال کر کے وہ منظر تشدد اور تشدد سے نکلنے والے جذبات کو بہت اچھی طرح ظاہر کرتا ہے۔ ہندی کمرشیل فلم میں ٹنوں خون بہا کر بھی ویسا اثر پیدا نہیں کیا گیا۔
سنیمائی نظریہ سے اور موضوع کے ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے یہ فلم بین الاقوامی سطح کی فلم ہے۔ اسے ضرور دیکھیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 04 May 2018, 3:27 PM