فلم ریویو... ’نہ ناک ہے، نہ کان، جھمکے کہاں لٹکاؤں گی‘، اپنی پہچان دوبارہ حاصل کرنے کی جدوجہد ہے ’چھپاک‘
تیزاب حملہ سے متاثر لڑکی اپنی پرانی پہچان گنوا کر دوبارہ خود اپنی پہچان سے ایک نئے طور پر متعارف ہونے کی مشقت کرتی ہے۔ سوچیں کہ اچانک آپ کا چہرہ بالکل الگ نظر آنے لگے تو کیا ہو؟
فلم ’چھپاک‘ ریلیز ہونے سے پہلے ہی کافی مشہور ہو گئی۔ یہ شہرت فلم کی کہانی کی وجہ سے نہیں ملی بلکہ اداکارہ دیپکا پادوکون کے جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) جا کر زخمی طلبا سے ملاقات کی وجہ سے ملی۔ چونکہ دیپکا کی یہ فلم (جس کی وہ پروڈیوسر بھی ہیں) ایک سماجی ایشو پر مرکوز ہے، تو ان کا یونیورسٹی جا کر طلبا سے ملنا فطری تھا۔ خاص کر اس لیے بھی کہ انھوں نے وہاں کسی کے حق یا خلاف میں کوئی بات نہیں کی۔ بہر حال، اسے لے کر ریلیز سے پہلے ہی فلم کے تعلق سے بحث تو شروع ہو ہی گئی۔
اب آتے ہیں فلم پر۔ اگر اس بات کو درکنار کر دیں کہ فلم کی کہانی تیزاب حملے کی شکار لکشمی اگروال کی آپ بیتی پر مبنی ہے، تو بھی فلم کی اسکرپٹ بہت مضبوط اور حساس ہے۔ ہدایت کار میگھنا گلزار نے ایسے نازک اور پیچیدہ اسکرپٹ کو پردے پر اتارنے کے لیے اپنی ایک خاص پہچان بنائی ہے اور اس فلم کے ساتھ ہی وہ اپنے ہنر کو کئی قدم آگے بھی لے گئی ہیں۔
تیزاب حملہ کی شکار عورت سب سے پہلے خود اپنی پہچان سے ایک نئے سرے سے متعارف ہونے کے لیے مشقت کرتی ہیں۔ ذرا سوچیں کہ اچانک آپ کا چہرہ بالکل الگ نظر ٓانے لگے تو آپ خود کے لیے اجنبی نہیں ہو جائیں گے؟ فلم کا ایک ڈائیلاگ ہے، جو بغیر کسی میلوڈرامہ کی اس تکلیف کو ابھارتا ہے... ’’نہ ناک ہے، نہ کان، جھمکے کہاں لٹکاؤں گی؟‘‘
اس کے بعد تیزاب حملہ متاثرہ کو اپنی سماجی پہچان کے لیے جدوجہد کرنا ہوتا ہے۔ اور پھر تیسرا موقع ہوتا ہے انصاف کے لیے لڑنا جو ہمارے جیسے ملک میں نہ صرف مشکل ہے بلکہ زبردست تکلیف دہ بھی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی انفرادی تکلیف ہوتی ہے جسے تیزاب حملہ کی شکار ہی برداشت کرتی ہے۔
ان تینوں سطحوں پر فلم کہانی کو مضبوطی کے ساتھ کہتی ہے۔ ہیروئن مالتی کی جدوجہد اور بھی تکلیف دہ ہو جاتی ہے جب وہ تیزاب کی کھلے عام فروخت کو روکنے کی لڑائی لڑتی ہے۔ کس طرح ایک عام شخص اپنے نجی جدوجہد سے اوپر جا کر سماج کے لیے ’ہیرو‘ ہو جاتا ہے اور اپنی انفرادی تکلیف پر فتح حاصل کر ایک بڑی سطح پر بڑے مقصد کے لیے کام کرتا ہے... چھپاک کامیابی کے ساتھ دکھاتی ہے اور یہی بات اس فلم کو خاص اور خوبصورت بناتی ہے۔
میگھنا انسانی رشتوں کی گہرائی اور پیچیدگی دونوں کو بہت کم کہہ کر زیادہ سمجھا جاتی ہیں۔ بے شک دیپکا ایک اچھی اداکارہ ہیں، لیکن ان کی اچھی اداکاری کا سہرا جاتا ہے ہدایت کار میگھنا گلزار کو۔ یہ ایک ایسا موضوع تھا جس میں دشمن کو پہچان کر بدلہ لینا اور تشدد کو آسانی سے ہائی لائٹ کیا جا سکتا تھا، لیکن یہ پوری فلم انسانی توانائی سے بھری ہے۔ شاید خاتون ہدایت کار ہونے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ فلم بہت باریک چیزوں کو بھی بغیر ہنگامہ کے ظاہر کر دیتی ہے۔
فلم میں شنکر-احسان-لائے کی موسیقی ریمکس کے بیابان میں سکون کی ٹھنڈی ہوا کی طرح ہے۔ فلم میں گلزار کے ذریعہ لکھے گئے جذباتی نغمے تو ہیں ہی، دیپکا کی اداکاری بھی قابل تعریف ہے۔ فلم میں ان کا کردار بہت مضبوط ہے۔ ہدایت کار ہنرمند ہو تو دیپکا جیسی حساس اداکارہ اچھی اداکاری تو کرے گی ہی۔ یہاں تعریف وکرانت میسی کی ہونی چاہیے جنھوں نے ایک این جی او چلانے والے کے طور پر شاندار اداکاری کی ہے، جو تیزاب حملہ متاثرین کے حق میں مہم چلاتے ہوئے اس سے پیار کرنے لگتا ہے۔ مشکل حالات میں محبت اور مدد کے جذبات ہی انسان کی امید بندھائے رکھتے ہیں اور جدوجہد کے لیے ترغیب دیتے ہیں۔
مجموعی طور پر ’چھپاک‘ ایک مضبوط اور حساس فلم ہے۔ بے کار کے پروپیگنڈا پر دھیان نہ دیتے ہوئے ’چھپاک‘ ضرور دیکھیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔