ذہین ہونے کے ساتھ مشاہدے کی اعلیٰ صلاحیت رکھتی تھیں نمی

علی رضا مرحوم نے برسات آن اور امر کے مکالمے تخلیق کیے تھے اور نمی نے ان سے ہی شادی کی تھی لیکن ان کے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ سوشل میڈیا ویڈیو گریب</p></div>

تصویر بشکریہ سوشل میڈیا ویڈیو گریب

user

یو این آئی

نمی کا اصل نام نواب بانو تھا۔ ان کے والد عبدالحکیم انگریزی فوج میں ٹھیکے دار تھے۔ والدہ کا نام وحیدن تھا، جو اپنے وقت کی معروف گلوکارہ تھیں اور فلموں میں کام بھی کر لیتی تھیں۔ نمی کی پیدائش 18 فروری 1933 کو آگرہ میں ہوئی۔ ان کے والد عبدالحکیم ایبٹ آباد (پاکستان) کے رہنے والے تھے۔ وحیدن بمبئی کی فلم انڈسٹری میں خاصا اثر و رسوخ رکھتی تھیں، خاص طور پر ان کے خاندان کے تعلقات ہدایت کار محبوب خان کے ساتھ کافی اچھے تھے۔

نمی ابھی 9 ہی برس کی تھیں کہ ان کی والدہ وحیدن کا انتقال ہو گیا، جس کے بعد ان کے والد عبدالحکیم نے انہیں ان کی دادی کے پاس ایبٹ آباد بھیج دیا ۔ ایبٹ آباد میں وہ ہند۔ پاک تقسیم (1947) تک رہیں۔ بعد میں عبدالحکیم اپنی والدہ اور بیٹی کو لیکر بمبئی آگئے، جہاں ان کے بھائی یعنی نمی کے چچا مستقل رہائش پذیر تھے۔ نمی کی چچی جیوتی بھی کسی دور میں اداکارہ رہ چکی تھیں۔


نمی کی والدہ وحیدن 1930 کی دہائی میں محبوب خان کے ساتھ کام کر چکی تھیں۔ اسی تعلق کی بناء پر محبوب خان نواب بانو کے ساتھ خصوصی شفقت رکھتے تھے۔ 1948 میں جب وہ اپنی بے مثال شاہکار ’’انداز‘‘ بنارہے تھے تو انہوں نے نمی سے اسٹوڈیو آ کر فلمسازی کی باریکیاں دیکھنے کے لئے کہا، جس پر انہوں نے اسٹوڈیو آنا جانا شروع کر دیا۔ وہ ذہین تھیں اور مشاہدے کی بہت اعلیٰ صلاحیت رکھتی تھیں۔ انداز پر کام ابھی جاری تھا کہ معروف اداکار راج کپور اپنی ہوم پروڈکشن فلم ’’برسات‘‘ کے لئے دوسری اداکارہ کی تلاش میں تھے۔مرکزی کردار کے لیے وہ نرگس کا انتخاب کر چکے تھے۔ کہانی کے مطابق انہیں ثانوی نسوانی کردار کے لیے ایک معصوم صورت، شرمیلی سی نوخیز لڑکی کی تلاش تھی، نمی انداز کے سیٹ پر محبوب خان کی مہمان ہوا کرتی تھیں، جس کے باعث انہیں خصوصی اہمیت دی جاتی تھی۔ اسی سیٹ پر راج کپور کی نظر ان پر پڑی تو انہیں لگا کہ جس لڑکی کی تلاش میں تھے وہ ان کے کافی قریب اور ان کی دست رس میں ہے۔ انہوں نے محبوب خان سے بات کی تو انہوں نے نمی کو کام کرنے پر راضی کرکے راج کپور صاحب کو گرین سگنل دے دیا۔

برسات کا یہ کردار کچھ مشکل تھا۔ خاص کر ایک ایسی لڑکی کے لیے جس نے اداکاری کے میدان میں پہلے سے تربیت نہ لی تھی لیکن جیسا کہا گیا کہ ان کے مشاہدے کی قوت بہت زبردست تھی، اسی صلاحیت کی بدولت انہوں نے کیمرے کی جھجک پر بہت جلد قابو پا لیا۔ ان کے مقابل پریم ناتھ جیسے منجھے ہوئے اداکار تھے لیکن نمی نے پہلی فلم ہی میں ایسی بے مثال اور فطری اداکاری کی کہ نقادوں کی اکثریت کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ فلم راج کپور، نرگس اور پریم ناتھ جیسے اداکاروں کے بجائے نمی کی اداکاری کے باعث باکس آفس پر ہٹ رہی۔ اس فلم نے مقبولیت کے منفرد ریکارڈ قائم کیے۔


اس فلم میں ان کا کردار بھیڑیں چرانے والی ایک پہاڑی لڑکی کا ہے، جسے ایک ایسی شہری لڑکےسے محبت ہو جاتی ہے جسے کسی کے نازک جذبات و احساسات کی کوئی پروا نہیں ہوتی اور وہ شہر واپس جا کر چرواہی کے ساتھ اپنے عہد و پیماں بھول جاتا ہے۔ اس فلم نے راتوں رات نمی کو فلم بینوں کے دلوں کی دھڑکن بنا دیا۔برسات ہی سے نواب بانو کا نام نمی پڑا۔ برسات کی کامیابی کے بعد نمی پر پیش کشوں کی بارش ہونے لگی۔

برسات کے بعد نمی کو بالی وڈ کے بڑے اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جن میں اشوک کمار کے ساتھ بھائی بھائی راج کپور کے ساتھ باورا، دیوآنند کے ساتھ سزا اور آندھیاں، دلیپ کمار کے ساتھ دیدار (1951)، داغ (1952) اور آن (1952) میں کام کیا۔ نرگس کے علاوہ امر میں مدھوبالا، ’’شمع‘‘ میں ثریا، اوشا کرن ،گیتا بالی اور چار دل، چار راہیں(1959) میں مینا کماری کے ساتھ کام کیا اور ان سبھی بڑی اداکارؤں کے درمیان نمی نے اپنی صلاحیت تسلیم کرائی۔ ایک بات جو بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ نمی بہت اچھی گلوکارہ بھی تھیں تاہم انہوں نے اپنی اس صلاحیت کو فلم ’’بیدردی‘‘ (1951) کے ایک گانے کے سوا کبھی اجاگر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ فلم ’’بیدردی‘‘ میں ان کا گایا ہوا گانا ان ہی پر فلمایا گیا ہے۔
’’آن‘‘ ہندوستان کی پہلی ٹیکنی کلر فلم تھی اور بہت بڑے بجٹ سے بنائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ اس فلم کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہ ہندوستان کی پہلی ایسی فلم تھی جو دنیا بھر میں ریلیز کی گئی تھی۔ اس فلم کا انگریزی ورژن سیویج پرنسزکے نام سے بنایا گیا تھا۔ لندن میں جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو نمی بھی لندن گئیں۔ وہاں ان کی ملاقاتیں متعدد شہرۂ آفاق فلمی شخصیات سے ہوئیں، جن میں ایرل فلن بھی شامل تھے۔ ایک موقع پر جب ایرل نے نمی کی شخصیت سے متاثر ہو کر ان کے ہاتھ پر احتراماً بوسہ دینا چاہا تو نمی نے فوراً ہاتھ کھینچ لیا اور ایرل کو کھری کھوٹی سنادی۔آن فرانسیسی زبان میں بھی ڈب ہوئی۔


نمی کو ہالی ووڈ کی متعدد فلموں میں مرکزی کردار کی پیش کشیں ہوئیں لیکن نمی نے اپنے ہندوستانی فلم بین کو زیادہ ترجیح دی۔ آن کی زبردست کامیابی کے بعد محبوب خان نے انہیں فلم امر میں موقع دیا۔ اس میں دلیپ کمار ہیرو تھے اور مدھوبالا ہیروئن تھیں۔ محبوب خان سے ان کی زندگی کے آخری دنوں میں جب پوچھا گیا کہ انہیں اپنی کون سی فلم سب سے زیادہ پسند ہے تو ان کا برملا جواب’’امر‘‘ تھا۔

نمی نے 1954 میں ’’ڈنکا‘‘ کے نام سے ایک فلم پروڈیوس بھی کی، یہ فلم کافی کامیاب رہی اور اس میں بھی ان کی پرفارمنس اعلیٰ قرار پائی۔ 1955 میں سہراب مووی نے ’’کندن‘‘ کے نام سے ایک فلم بنائی جو شہرۂ آفاق ناول لا مسریبل(La Miserable) پر مبنی تھی۔ اس میں سہراب مووی نے ایک نئے اداکار سنیل دت کو متعارف کرایا۔ اس میں نمی نے دوہرے کردار ادا کئے تھے، یعنی ماں اور بیٹی۔ یہاں بھی نمی نے اپنے فن کا لوہا منوایا۔


1955 میں اڑن کھٹولا، محبوب خان کی ایک اور پروڈکشن تھی، جس نے باکس آفس پر وہ کامیابی حاصل کی جس کی اس وقت تک مثال نہیں ملتی۔ اس فلم میں نمی نے اپنے کردار کی باریکیاں جس انداز میں پیش کیں، بہت کم اداکاراؤں کو یہ صلاحیت نصیب ہوئی۔ اس فلم کی موسیقی نوشاد نے دی تھی۔ اڑن کھٹولا کے نغمے آج بھی سنے جاتے ہیں۔ اس کے بعد 1956 میں ان کی ’’بسنت پیار‘‘اور ’’بھائی بھائی‘‘نمائش کے لئے پیش ہوئیں۔ 1957 میں جب ان کی عمر محض 24 سال تھی، انہیں بھائی بھائی میں ان کی کردار نگاری کے لیے کرٹک ایورڈ (Critic Award) پیش کیا گیا۔

بعد کے برسوں میں نمی بہت سلیکٹیوہو گئیں۔ ان کے بعض فیصلے تو درست رہے تاہم بعض فیصلوں نے انہیں ناقابلِ تلافی نقصان بھی پہنچایا۔ مثلاً 1963 میں ’’میرے محبوب‘‘ ہدایت کار اور رائٹر ہرمن سنگھ رویل نے بہت بڑے بجٹ کے ساتھ بنانے کا پروگرام بنایا۔ اس میں نمی کو مرکزی کردار کی پیش کش ہوئی لیکن انہوں نے اپنے لیے ثانوی کردار کا انتخاب کیا۔ ان کے خیال میں اس کردار میں وہ زیادہ اچھی پرفارمنس دے پائیں گی۔ یہ مرکزی کردار بعد میں نسبتاً نئی اداکارہ سادھنا کو دیا گیا اور جس کردار کے لیے سادھنا تجویز کی گئی تھیں، وہ نمی نے کیا۔ ان کے خیال کے برعکس ان کا کردار وہ تاثر نہ پیدا کر سکا جس کے لیے نمی فلم بینوں کے دلوں پر راج کر رہی تھیں۔ ہر چند کے انہیں فلم فیئر کا ایوارڈ بہترین معاون اداکارہ کا ملا لیکن اس کے بعد 1960 کی دہائی سادھنا ، نندا، آشا پاریکھ، مالا سنہا اور سائرہ بانو کے نام رہی۔ ان اداکاراؤں نے ہندی فلموں کی ہیروئن کے تصور کو تبدیل کر دیا۔ یہ فلم میں بے باک ہیروئنوں کے دور کا آغاز تھا۔


اس میں شک نہیں کہ نمی کا دور گزر رہا تھا لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی اداکاری میں گہرائی اور گیرائی کا عمل جاری رہا۔ انہوں نے 1964 میں پوجا کے پھول میں نابینا لڑکی اور آکاش دیپ میں اشوک کمار کی گونگی بیوی کے کردار کوبہتر ڈھنگ سے ادا کیا۔ وہ ایک ذہین خاتون تھیں، وقار کے ساتھ آئی تھیں لہٰذا وقار کے ساتھ وقت سے بہت پہلے فلمی دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ 1965 میں بنی فلم آکاش دیپ نمی کی آخری فلم ثابت ہوئی۔اس کے علاوہ ان کی ایک نامکمل فلم لو اینڈ گاڈ تھی۔ جسے کے آصف بنا رہے تھے یہ بہت بڑے بجٹ کی فلم تھی۔کے آصف کے بے وقت انتقال پر یہ فلم نامکمل ہی رہ گئی۔ بالآخر کافی سال بعد اسے نامکمل ہی ریلیز کردیا گیا۔

دلیپ کمار کے ساتھ ان کی خاصی قربت رہی اور انڈسٹری میں یہ افواہیں خاصے عرصے سرگرم رہیں کہ دونوں ایک دوسرے کے شریک حیات بن جائیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا اپنے ایک انٹرویو میں ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا ’’ دلیپ صاحب، مدھو بالا کی زلف گرہ گیر کے اسیر تھے‘‘۔ بعد میں نمی سید علی رضا کے ساتھ نکاح کے بندھن میں بندھ گئیں۔ دلیپ اور نمی دونوں نے اپنے بارے میں پھیلی خبروں کی ہمیشہ تردید کی ۔ واضح رہے کہ علی رضا مرحوم نے برسات آن اور امر کے مکالمے تخلیق کیے تھے۔ علی رضا سے شادی کے بعد نمی ممبئی میں بس گئیں۔ اس جوڑے کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی۔ علی رضا کا انتقال 2007 میں ہوا اور 25 مارچ 2020 کو نمی بھی اس دارفانی سے کوچ کرگئیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔