بدلتے وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ’سنیمائی ماں‘

’مدر انڈیا ‘ میں ماں یعنی رادھا کا کردار معروف اداکارہ نرگس نے ادا کیا تھا جو معاشرے کی ناانصافی سے بغاوت کرنے کے بعد ڈاکو بن گئے اپنے بیٹے برجو یعنی کہ سنیل دت کو آخر کار موت کی نیند سلا دیتی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

پرگتی سکسینہ

ہندوستان کے باشندگان خواتین کے ساتھ چاہے جیسا سلوک کریں لیکن ماں کو بہت عزت دیتے ہیں۔ یہاں ملک کی زمین کو ماں کا درجہ دیا جاتا ہے اور جس مقام پر پیدا ہوتے ہیں اسے مادر وطن کہا جاتا ہے۔  خواتین و مرد سے علیحدہ ماں کا تصور قربانی دینے والی عظیم شخصیت کے طور پر کیا جاتا ہے۔  بالیوڈ فلمیں بھی ماں کی اسی شبیہ کی منظر کشی کرتی رہی ہیں۔ لیکن سماج بدل گیا ہے اور وقت کے ساتھ پردہ سیمیں پر نظر آنے والی ماں کی شبیہ بھی کافی حد تک تبدیلیوں کے دور سے گزری ہے۔

سال 1957 میں ریلیز ہونے والی  ’مدر انڈیا ‘ نے ماں کی ایک طاقتور شبیہ کو نمایاں کیا۔ اس فلم میں ماں یعنی رادھا کا کردار معروف اداکارہ نرگس نے ادا کیا تھا جو معاشرے کی ناانصافی سے بغاوت کرنے کے بعد ڈاکو بن گئے اپنے بیٹے برجو (سنیل دت) کو آخر کار موت کی نیند سلا دیتی ہے۔ رادھا یہ قدم اُسی معاشرے کی بہتری کی خاطر اٹھاتی ہے جو اُس کی مشکلات سے بھری زندگی کے لئے ذمہ دار ہے۔ ناظرین کے جذبات کا پیمانہ اس وقت لبریز ہو جاتا ہے جب رادھا اپنے بیٹے برجو پر بندوق تان دیتی ہے اور برجو کہتا ہے – ’’تو مجھے نہیں مار سکتی، تو میری ماں ہے۔‘‘ لیکن رادھا اپنی اندرونی کشمکش سے جد و جہد کرتے ہوئے اس پر گولی چلا دیتی ہے۔

فلم کے ڈائیلاگ بہترین تھے اور ایک عورت اور ماں کے دل کی کشمکش کو مؤثر طریقہ سے ظاہر کرتے ہیں۔ ’’سنسار کا بھار اٹھا لوگی دیوی، ممتا کا بھار نہیں اٹھایا جائے گا۔ ماں بن کر دیکھو، تمہارے پاؤں بھی ڈگمگا جائیں گے۔‘‘ اس طرح کے ڈائیلاگ بہت مشہور ہوئے اور آج بھی یاد کئے جاتے ہیں۔

بدلتے وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ’سنیمائی ماں‘
فلم ’مدر انڈیا‘ کا پوسٹر

مدر انڈیا صرف ہٹ ہی نہیں ہوئی بلکہ اس کے بعد آنے والی فلموں میں ماں کے کردار تقریباً ’مدر انڈیا ‘ کی طرز پر ہی گڑھے جانے لگے۔ عام بول چال میں بھی ’مدر انڈیا‘لفظ کا استعمال ان خواتین کے لئے کیا جانے لگا جو اپنے خاندان کے مفاد میں سب کچھ قربان کر دیتی ہیں (ایسا تقریبا تمام مائیں کرتی ہیں، بالخصوص برصغیر کی مائیں)۔

اس کے بعد اگر فلموں میں ماں کے کردار کا ذکر ہوتا ہے تو خود بخود ’نیروپا رائے ‘ کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ 1975 میں فلم ’دیوار‘ نے امیتابھ بچن کی ’اینگری ینگ مین‘ کی شبیہ کو تو قائم کیا ہی، نیروپا رائے کو بھی ایک ایسی ماں کے طور پر مشہور کر دیا جو اپنے بیٹے کے لئے زار و قطار روتی ہے، اس پر اپنا سب کچھ قربان کر سکتی ہے سکتی ہے، لیکن اپنے اصولوں سے نہیں پھر سکتی۔ ’’میرے پاس ماں ہے!‘‘ اس فلم کے چند یادگار ڈائیلاگس میں سے ایک ہے۔

بدلتے وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ’سنیمائی ماں‘
فلم ’دلوالے دلہنیا لے جائیں گے‘ کی ماں فریدہ جلال اور کاجول

اس کے بعد تو بالیوڈ میں نیروپا رائے اور ’ماں‘ کے کرداروں کا اٹوٹ رشتہ قائم ہو گیا۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے کئی فلموں میں امیتابھ بچن کی ماں کا کردار ادا کیا ۔ بعد میں وہ پردے پر دیگر اداکاروں کی بھی ماں بنیں لیکن شبیہ وہی  ایک بھلی سی  محبت کرنے والی ماں کی ہی بنی رہی، جو اپنے بیٹے کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہے۔  دراصل اُن کا نام اسی طرح ’ماں ‘ کے کرداوں کے ساتھ وابستہ ہو گیا جس طرح امریش پوری کا نام ’ویلن‘ اور امجد خان کا نام گبر سنگھ سے وابستہ ہے۔

اسی دوران ایک نئی اداکارہ ماں کے کردار میں نظر آئیں اور وو تھیں ’دینا پاٹھک‘۔  وہ کچھ علیحدہ قسم کی ماں تھیں۔ یاد ہے فلم ’خوبصورت‘ میں ہیرو کی ماں نرملا ، جن کی پردے پر اینٹری ہوتے ہی خاموشی طاری ہو جاتی ہے! نرملا کے سخت ڈیسپلن (نظم و ضبط ) کو منجو (ریکھا) چیلنج کرتی ہے۔ فلم گولمال (1979) میں دینا پاٹھک مختلف قسم کی ماں کے کردار میں نظر آئیں۔  وہ ایک طرف تو ایک سوشلائٹ ہیں اور دوسری طرف ہیرو کی جعلی ماں کا رول ادا کرتی ہیں جو جذباتی ہندوستانی ماں ہیں۔ دینا پاٹھک کا تھوڑا جداگانہ ماں والا کردار ’نروپا رائے‘ یا نرگس جتنا مقبول تو نہیں ہو سکا لیکن ان کے کردار کے ذریعہ اس بات کی آہٹ ملنے لگی کہ اب فلمی ماں کی شبیہ تبدیل ہونے والی ہے۔

بدلتے وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ’سنیمائی ماں‘
فلم ’کرن ارجن‘ میں ماں راکھی کے ساتھ سلمان خان اور شاہرخ خان

بعد ازاں کامیاب فلم ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ (1995) میں فریدہ جلال ماں کے کردار میں نظر آئیں۔فریدہ جلال نے فلم میں کاجول کی ماں کا کردار ادا کیا۔  بالیوڈ کی کسی فلم میں شاید پہلی دفعہ ایک ایسی ماں کا کردار متعارف کرایا گیا جس میں ایک خاتون کو انتہائی سخت شوہر کی بیخوف بیوی کے طور پر ظاہر کیا گیا ۔ فلم کے ایک سین میں فریدہ جلال اپنی بیٹی یعنی کاجول کو یہ سمجھاتی نظر آتی ہیں کہ عورت کی ساری زندگی سماج کے کرداروں کو ادا کرنے میں گزر جاتی ہے اور وہ اپنی خوشی پر کبھی توجہ نہیں دے پاتی، لہذا ابھی وقت ہے کہ وہ اپنے والد کے خلاف بغاوت کرے اور اس کے ساتھ گھر سے بھاگ جائے جس سے وہ محبت کرتی ہے۔

فلم مغلِ اعظم میں دلیپ کمار اور درگا کھوٹے ماں بیٹے کے کردار میں
فلم مغلِ اعظم میں دلیپ کمار اور درگا کھوٹے ماں بیٹے کے کردار میں

اس کے بعد بالیوڈ کی فلموں میں ماں کا کردار تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔  وہ چاہے دوستانہ (2008) کی ماں کرن کھیر ہو، یا ’کل ہو نہ ہو‘ کی ماں ریما لاگو، اب مائیں کچھ ترقی پسند نظر آنے لگیں۔ ایک اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ اب فلموں کی ماؤں کی ذہنیت اور اصول سماج کی جگہ اپنے خاندان تک ہی محدود ہونے لگے۔ چینی کم (2007) میں زہرہ سہگل ایک ایسی ماں کے کردار میں نظر آئیں جو اپنے بیٹے سے جنسی معاملات (جن کا ابھی تک بالیوڈ میں کھل کر ذکر نہیں کیا جاتا تھا) پر بھی بات کرتی ہے۔ ’مام ‘(2017) اور ’ماتر‘ (2017) کی مائیں اپنی بیٹی پر ہوئے ظلم کا انتقام لیتی ہیں تو ’سیکریٹ سپر اسٹار‘ کی ماں کو اس کی بیٹی ایک عورت کے طور پر بھی سمجھتی ہے اور جب اپنے باپ کو اس پر ظلم کرتے دیکھتی ہے تو وہ صاف کہتی ہے کہ اسے اپنے شوہر کو چھوڑ دینا چاہئے۔

بدلتے وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ’سنیمائی ماں‘
فلم ’ویر زارا‘ میں کرن کھیر اور شاہرخ خان

’ماں‘ کے کردار میں یہ ایک بڑی تبدیلی ہے کہ اب بالیوڈ کی ماں محض ایک استحصال کی شکار، قربانی اور ضبط کی ہی مورت نہیں ہے بلکہ وہ بھی ایک عام عورت ہے جو اپنے بچے کی خوشی کے بارے میں بھی سوچتی ہے اور اپنی خوشی کا بھی پورا خیال رکھتی ہے۔ وہ ایک شخص کے طور پر شوہر سے الگ رہ کر اپنی اولاد سے جڑی رہ سکتی ہے یا پھر سماج سے بغاوت بھی کر سکتی ہے۔ لیکن اب بھی ہمارے سماج کی طرح ہی ہماری فلموں کو اس مقام تک پہنچے میں تھوڑا وقت اور لگے گا جب ماں کے کردار کو ایک عورت کے طور پر بھی سمجھا اور قبول کیا جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 May 2018, 11:38 AM