محمد رفیع کے ان نغموں کے بغیر آج بھی ادھوری لگتی ہے شادی... یوم وفات پر خصوصی پیشکش
شہرت دوام حاصل کرنے والا عظیم گلوکار محمد رفیع کو دنیا سے گئے 39 سال ہو گئے لیکن رومانیت سے بھرپور ان کی صوفیانہ آواز آج بھی کانوں میں شہد گھولتی ہے۔
کچھ تاریخیں پوری دنیا کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک تاریخ ہے 31 جولائی۔ اس تاریخ کو محمد رفیع نے دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا۔ سب انھیں عظیم گلوکار مانتے ہیں۔ کوئی انھیں بے مثال کہتا ہے تو کوئی آواز کا جادوگر۔ کچھ لوگوں نے تو انھیں ’آواز کا خدا‘ تک کہہ دیا۔ محمد رفیع ایسی آواز کے مالک تھے جو صدیوں میں کبھی کبھار ہی سننے کو ملتی ہے۔
ہندوستانی سماج میں کئی مواقع ایسے ہوتے ہیں جنھیں فلمی نغموں کے ذریعہ سال در سال یادگار بنایا جاتا رہا ہے۔ ہندی فلموں میں ایسے تنہا گلوکار محمد رفیع ہیں جن کی آواز کئی مواقع کو برسوں برس یادگار بناتی رہی ہے۔ یاد کیجیے ان کا گایا نغمہ ’بابل کی دعائیں لیتی جا، جا تجھ کو سکھی سنسار ملے‘ جو کئی دہائیوں تک گھر گھر میں بیٹی کی وداعی کے وقت ضرور بجتا تھا۔ اسی طرح دولہے کے گھر پر اس نغمہ کے ساتھ بارات شروع ہوتی تھی ’آج میرے یار کی شادی ہے‘۔ آزادی کے جشن کا موقع ہو تو ریڈیو اور لاؤڈ اسپیکر پر فلم حقیقت کا نغمہ ’کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو‘ بجنا لازمی تھا۔ یہ تو کچھ مثالیں بھر ہیں۔ ان کے نغموں کی رینج کے بارے میں کچھ جملوں میں بھلا کیسے لکھا جا سکتا ہے۔
رفیع صاحب کے نغموں نے ہنسایا ہے، محبت کے پچاسوں انداز سکھائے ہیں، ایسے بھجن گائے جو سر کو پرماتما کے سامنے جھکنے کو مجبور کر دیں۔ ایسی نعتیں اور قوالیاں گائیں جنھیں عقیدت سے سننے والا جھومتا رہ جائے۔ آواز جب دل پر اثر کرتی ہے تو آنکھیں بھر آتی ہیں۔ کوئی گلوکار زندگی میں ایک بار بھی ایسا نغمہ گا دے تو اس کے لیے بڑی بات ہوتی ہے، لیکن محمد رفیع صاحب نے بار بار ایسے نغمے گائے جو سننے والوں کو رُلا دیتے تھے۔
40 کی دہائی میں بنگال کی خشک سالی نے لاکھوں جانیں لے لی تھیں۔ تب رفیع صاحب فلموں میں نئے نئے ہی آئے تھے۔ ان کی آواز کی کشش انھیں فلموں میں گلوکاری کا موقع تو دے ہی رہی تھی، ذاتی ریکارڈنگ کا موقع بھی دے رہی تھی۔ ایسے میں انھوں نے ایک نغمہ گایا ’آیا اَنت جگت کا لوگوں، کال پڑا ہے کال‘۔ رفیع صاحب کی آواز کے درد نے اس بات میں ایسا جذبہ ڈال دیا کہ لوگ اس گیت کو سن کر رو پڑتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ خشک سالی متاثرین کی مدد کرنے والے سینکڑوں لوگوں کے جذبے کے پیچھے اسی نغمہ کا اثر تھا۔
شہرت کی اونچائیوں پر پہنچنے کے بعد بھی رفیع نے کبھی فلمی گلوکاری کو ہلکے میں نہیں لیا۔ عام طور پر وہ ایک نغمہ کی گلوکاری کے لیے ہفتے بھر پریکٹس کرتے اور اس کے بعد ریہرسل کا دور چلتا تھا۔ نوشاد، شنکر جے کشن، مدن موہن جیسے قدآور ہوں یا پھر جے دیو اور سونک اومی جیسے کم مشہور موسیقار ہوں، رفیع نے سب کو برابر کی عزت دی۔ وہ ریہرسل میں موسیقار کو مطمئن ہو جانے کے بعد ہی گانے کی ریکارڈنگ کرتے تھے۔ آواز کی بدولت انھیں وہ سب حاصل ہوا جس کا بس خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن کچھ ایسے اعزاز بھی تھے جس کے وہ حقدار تھے لیکن انھیں نہیں دئیے گئے۔
حالانکہ محمد رفیع کی شہرت اس بلندی پر پہنچ گئی تھی جہاں کسی بھی طرح کے اعزاز یا ایوارڈ کا قد چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ محمد رفیع کو ہندوستان میں سنیما کے سب سے بڑے اعزاز دادا صاحب پھالکے سے کبھی نہیں نوازا گیا، وہ بھارت رتن کے حقدار ہیں لیکن اس اعزاز کے لیے بھی ان کے نام پر کبھی غور نہیں کیا گیا۔ لیکن ایک فنکار کے لیے سب سے بڑا انعام اس کے چاہنے والے ہوتے ہیں۔ جس گلوکار کو دنیا سے گزرے 39 سال ہو گئے ہوں، اس کے نغمے آج بھی اتنے ہی مقبول ہیں جتنے 60-50 سال پہلے تھے۔ ریڈیو، ٹی وی، سی ڈی، فلمیں اور ریکارڈوں کے ذریعہ رفیع صاحب صبح سے شام تک آج بھی ہمارے درمیان رہتے ہیں۔ ہمیشہ کے لیے زندہ رہنا اسی کو کہتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 31 Jul 2019, 12:10 PM