محمود: بالی ووڈ کا ’کامیڈی کنگ‘...خصوصی پیشکش
تقریباً پانچ دہائی تک ناظرین کو ہنسانے والے محمود نے بالی ووڈ میں یہ مقام حاصل کرنے کے لئے کافی جد و جہد کی تھی، شروعات میں انہیں یہاں تک سننا پڑا تھا کہ وه اداکار بننے کے لائق ہی نہیں ہیں۔
چائلڈ آرٹسٹ سے کامیڈین کے طور پر شروعات کرنے والے محمود کی پیدائش ستمبر 1933 کو ممبئی میں ہوئی تھی۔ ان کے والد ممتاز علی بامبے ٹاكيز اسٹوڈیو میں کام کیا کرتے تھے۔ گھر کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے محمود ملاڈ اور ورار کے درمیان چلنے والی لوکل ٹرینوں میں ٹافیاں فروخت کرتے تھے۔
بچپن کے دنوں سے ہی محمود کا رجحان اداکاری کی طرف تھا اور وہ اداکار بننا چاہتے تھے۔ اپنے والد کی سفارش سے محمود کو بامبے ٹاکیز کی سال 1943 میں آئی فلم قسمت میں اداکار اشوک کمار کے بچپن کا کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔
اس دوران محمود نے کار ڈرائیو کرنی سیکھی اور پروڈیوسر گیان مکھرجی کے یہاں بطور ڈرائیور کام کرنے لگے کیونکہ اسی بہانے انہیں مکھرجی کے ساتھ ہر دن اسٹوڈیو جانے کا موقع مل جایا کرتا تھا جہاں وہ فنکاروں کو قریب سے دیکھ سکتے تھے۔ اس کے بعد محمود نے موسیقار گوپال سنگھ نیپالی، بھرت ویاس، راجہ مہندی علی خان اور پروڈیوسر پی ایل سنتوشی کے گھر پر بھی ڈرائیور کا کام کیا۔
محمود کی قسمت کا ستارہ تب چمکا جب فلم نادان کی شوٹنگ کے دوران اداکارہ مدھوبالا کے سامنے ایک جونیئر آرٹسٹ مسلسل دس ريٹیك کے بعد بھی اپنا ڈائیلاگ نہیں بول پایا۔ فلم ڈائریکٹر ہیراسنگھ نے یہ مکالمہ محمود کو بولنے کے لیے دیا جسے انہوں نے بغیر ریٹیک کے ایک ہی بار میں ادا کردیا۔
اس فلم میں محمود کو بطورمحنتانہ 300 روپے ملے جبکہ بطور ڈرائیور محمود کو ماہانہ 75 روپے ہی ملا کرتے تھے۔ اس کے بعد محمود نے ڈرائیور کا کام چھوڑ دیا اور اپنا نام جونیئر آرٹسٹ ایسوسی ایشن میں درج کرا دیا اور فلموں میں کام حاصل کرنے کے لئے جدوجہد شروع کردی۔ اس کے بعد بطور جونیئر آرٹسٹ محمود نے دو بیگھہ زمین، جاگرتی، سی آئی ڈی، پیاسہ جیسی فلموں میں چھوٹے موٹے رول کیے جن سے انہیں کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔
اسی دوران محمود نے اے وی ایم کے بینر تلے بننے والی فلم مس میری کے لئے اسکرین ٹیسٹ دیا لیکن وہ اسکرین ٹیسٹ میں فیل ہوگئے۔ ان کے بارے میں اے وی ایم کی رائے کچھ اس طرح تھی کہ وہ نہ کبھی اداکاری کرسکتے ہیں اور نہ ہی اداکار بن سکتے ہیں۔ بعد کے دنوں میں اے وی ایم بینر کی ان کے بارے میں نہ صرف رائے بدلی ساتھ ہی انہوں نے محمود کو لے کر بطور اداکار فلم ’میں سندرہوں‘ بھی بنائی۔
اسی دوران محمود کمال امروہی کے پاس فلم میں کام مانگنے کے لئے گئے تو انہوں نے محمود کو یہاں تک کہہ دیا کہ آپ اداکار ممتاز علی کے بیٹے ہیں اور ضروری نہیں ہے کہ ایک اداکار کا بیٹا بھی اداکار بن سکے۔ آپ کے پاس فلموں میں اداکاری کرنے کی قابلیت نہیں ہے۔ آپ چاہیں تو مجھ سے کچھ پیسے لے کر کوئی کاروبار کر سکتے ہیں۔
اس طرح کی بات سن کر کوئی بھی مایوس ہو سکتا ہے اور فلم انڈسٹری کو الوداع کہہ سکتا ہے لیکن محمود نے اسے چیلنج سمجھا اور نئے جوش و خروش کے ساتھ کام کرنا جاری رکھا۔ اسی دوران انہیں بی آر چوپڑا کیمپ سے بلاوا آیا اور فلم ایک ہی راستہ کے لئے کام کرنے کی پیش کش ہوئی۔
محمود نے محسوس کیا کہ اچانک اتنے بڑے بینر کی فلم میں کام ملنا محض ایک اتفاق نہیں ہے اس میں ضرور کوئی بات ہے۔ بعد میں جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ فلم انہیں اپنی بیوی کی بہن مینا کماری کی کوشش سے حاصل ہوئی ہے تو انہوں نے فلم ایک ہی راستہ میں کام کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ فلم انڈسٹری میں اپنے بل بوتے پر اداکار بننا چاہتے ہیں نہ کہ کسی کی سفارش پر۔
اس دوران محمود نے جدوجہد کرنا جاری رکھا۔ جلد ہی ان کی محنت رنگ لائی اور سال 1958 میں آئی فلم پرورش میں انہیں ایک اچھا کردار مل گیا۔ اس فلم میں انہوں نے راج کپور کے بھائی کا کردار ادا کیا۔ اس کے بعد انہیں ایل وی پرساد کی فلم چھوٹي بہن میں کام کرنے کا موقع ملا جو ان کے فلمی کریئر کے لئے اہم فلم ثابت ہوئی۔
فلم چھوٹی بہن میں بطور محنتانہ انہیں 6000 روپے ملے۔ فلم کی کامیابی کے بعد بطور اداکار محمود فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس فلم میں ان کی اداکاری کی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا نے کافی تعریف کی تھی۔
سال 1961 میں محمود کو ایم وی پرساد کی فلم سسرال میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد بطور کامیڈین محمود فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ فلم سسرال میں ان کی جوڑی اداکارہ شوبھا کھوٹے کے ساتھ کافی پسند کی گئی۔ اسی سال انہوں نے اپنی پہلی فلم چھوٹے نواب بنائی۔ اس کے ساتھ ہی اس فلم کے ذریعہ انہوں نے آر ڈی برمن عرف پنچم دا کو بطور موسیقار فلم انڈسٹری میں پہلی بار پیش کیا۔
اپنے کردار میں آئی یکسانیت سے بچنے کے لئے محمود نے اپنے آپ کو مختلف قسم کے رول میں پیش کیا۔ اسی ترتیب میں سال 1968 میں آئی فلم ’پڑوسن‘ کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔ فلم پڑوسن میں محمود نے منفی مگر مزاحیہ کردار ادا کیا اور ناظرین کو متاثر کرنے میں کامیاب رہے۔ فلم میں ان پر فلمایا گیا ایک گانا ایک چتر نار کرکے شنگار .. کافی مقبول ہوا۔
سال 1970 میں آئی فلم همجولی میں محمود کی اداکاری کا انوکھا انداز ناظرین کو دیکھنے کو ملا۔ اس فلم میں انہوں نے ٹرپل رول ادا کیا اور ناظرین کی توجہ اپنی طرف کھینچی۔ انہوں نے کئی فلمیں بنائیں اور ہدایت بھی کی اور کئی فلموں میں اپنی گلوکاری سے بھی ناظرین کو اپنا دیوانہ بنایا۔
محمود کو اپنے فلمی کریئر میں تین بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اپنے پانچ دہائی طویل فلمی کریئر میں تقریباً 300 فلموں میں اداکاری کا جوہر دکھا کر محمود 23 جولائی 2004 کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 23 Jul 2019, 5:10 PM