مینا کماری: محرومیوں سے کامیابیوں تک ’باکمال‘ سفر
مینا کماری کو بالی وڈ کی ’ٹریجڈی کوین‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے مداحوں کا کہنا ہے کہ ’’مینا کماری جس کھنک دار آواز کی مالک تھیں ویسی آواز دنیا میں کسی اور کی نہ ہوئی اور نہ کبھی ہوگی۔‘‘
مینا کماری بالی وڈ کی وہ مایہ ناز اداکارہ رہی ہیں جنہوں نے اپنی اداکاری سے سنیما کی دنیا پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ مسلسل نشیب و فراز کا شکار رہیں مینا کماری نے اپنی بچپن کی محرومیوں اور تلخیوں کو ہی اپنا ہتھیار بنا لیا اور دنیا پر چھا گئیں، ان کی متعدد فلمیں بالی وڈ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حالانکہ ذاتی زندگی میں وہ کافی پریشان بھی رہیں اور اپنا غم غلط کرنے کے لئے انہوں نے شراب نوشی کا راستہ اختیار کر لیا۔ شراب نوشی نے ان کے جسم پر بہت برا اثر ڈالا، وہ کئی بیماریوں میں مبتلا ہو گئیں اور صرف تقریباً 39 برس کی عمر ی میں ہی اس دنیا ئے فانی کو الوداع کہہ دیا۔
مینا کماری یو ں تو ہر طرح کے کردار میں خود کو ڈھال لیا کرتی تھیں لیکن جب وہ سنجیدہ کردار نبھاتیں تو وہ ایک مثال بن جایا کرتی تھیں۔ سنجیدہ اور درد میں ڈوبے کرداروں کو مؤثر طریقہ سے ادا کرنے کی صلاحیت نے انہیں سنیما کے آسمان کی ان بلندیوں تک پہنچا دیا جہاں تک شاید ہی کوئی اداکارہ پہنچی ہو۔ مینا کماری بہترین اداکارہ کے ساتھ ساتھ ایک اچھی شاعرہ بھی تھیں۔ ان کے کرداروں کی طرح ان کی شاعری میں بھی درد، بے چینی، تنہایوں، محرومیوں اور بے شمار تلخیوں کا ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے۔
’’مینا کماری کا اصل نام مہ جبیں تھا۔ گھر میں انہیں ’منّا‘ کہا جاتا تھا۔ بالی وڈ میں انہوں نے ’بے بی مینا‘ کے نام سے اداکاری کی شروعات کی ۔ شاعری میں ان کا تخلص ’ناز‘ تھا اوران کے شوہر کمال امروہی انہیں پیار میں منجو کہا کرتے تھے۔ اس طرح ان کے چھ نام تھے اور ان کی اداکاری ست رنگی تھی۔ ‘‘
مینا کماری کی زندگی اور ان کی شخصیت پر بات کرنے کے لئے دہلی کے انڈیا ہیبی ٹیٹ سینٹر میں کملیش کمار کوہلی کے تعاون سے امپریسیریو ایشیا کے زیر اہتمام یک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں موجود مقررین نے مینا کماری کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو جس انداز میں پیش کیا وہ قابل ستائش تھا۔
مینا کماری کی شخصیت پر بات کرنے کے لئے صحافی انیس امروہی اور ماہر نفسیات ڈاکٹر راجیش ساگر خاص طور پر موجود تھے۔ ایک یا ڈیڑھ گھنٹے کی تقریب کے دوران سانس روک کر مینا کماری کی زندگی، ان کے درد اور کمال کی اداکاری کو محسوس کر رہے متعدد حاضرین کی آنکھیں کئی مرتبہ پرنم نظر آئیں۔
پروگرام کے آغاز میں انیس امروہی نے بتایا ’’مینا کمار ی کے والد ماسٹر علی بخش اور والدہ اقبال بیگم کے گھریلو حالات اقتصادی طور پر کمزور تھے۔ ماں کو بیٹے کی خواہش تھی لیکن پیدا بیٹی ہو ئی ، اس لئے ماں کو مینا کماری سے خاص محبت نہیں تھی۔مینا کماری کا بچپن اتنی محرومی میں گزرا کہ ان کے پاس کھیلنے کے لئے کھلونے تک نہیں تھے ۔ ‘‘
انیس امروہوی نے بتایا ’’ مینا کماری کے پاس کھیلنے کے لئے کھلونے تو تھے نہیں اس لئے وہ عجیب طرح سے اپنا دل بہلایا کرتی تھیں۔ وہ اپنے آنگن سے کنکر پتھر اٹھا کر معروف موسیقار نوشاد صاحب کے گھر پر پھینک دیا کر تی تھیں ۔ نوشاد صاحب کو بھی یہ علم نہ تھا کہ ان کے گھر پر پتھر پھینکنے والی بچی ایک دن بڑی اداکارہ بنے گی۔جس کے دنیا میں چرچے ہو ں گے ۔‘‘
پروفیسر اور فلمی دنیا کے بڑے نقاد، وبھاس چندرورما کہتے ہیں کہ ’’ مینا کماری اپنےوالد کے زیادہ قریب تھیں اسے اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ مینا کماری اپنے والد کے لئے شہرت اور عزت دلانے کا ایک ذریعہ ثابت ہوئیں کیوں ماسٹر علی بخش فلم انڈسٹری میں بطور موسیقار اپنا کوئی خاص مقام نہیں بنا سکے۔ انہوں نے انہیں شہرت بھی دلائی اور پیسہ بھی۔ کمال امروہوی سے شادی کرنے کے بعد مینا کماری کے سامنے ایسی صورت حال پیدا ہو گئی تھی کہ وہ پھر کبھی اپنے والد کے گھر نہیں گئیں ۔ مینا کماری نے اپنے والد کو ایک ایسا جذباتی خط لکھا تھا جو اپنے آپ میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر راجیش ساگر نے مینا کماری کی شخصیت کو میڈیکل سائنس کے ذریعہ بہت ہی موثر طریقہ سے سمجھایا۔’’ مینا کماری اپنے آپ میں ایک کیس اسٹڈی ہیں۔ کسی بچے کو اگر والدین کی توجہ نہ ملے تو اس بات کا اثر اس کی زندگی پر تا عمر رہ جاتا ہے۔ شخصیت کے نکھار میں اسکولوں کا بھی اہم رول ہو تا ہے مگر افسوس مینا کماری باضابطہ طور پر اسکول بھی نہیں جا سکیں ۔ ‘‘
انہوں نے مزید کہا ’’محرومیوں کا اثر دماغ پر پڑتا ہے اور اس کا نتیجہ بیماری کے طور پر سامنے آ سکتا ہے۔ شاید اسی طرح کا اثر مینا کماری کی زندگی پر پڑا۔ ‘‘
’’جب نا گزیر حالات سے گزر کر کوئی بچہ بڑا ہوتا ہے تو اسے کچھ ایسی عاداتیں پڑ جا تی ہیں جو ایک خطر ناک شکل اختیار کر لیتی ہیں جیسے شراب نوشی یا تیز رفتار سے گاڑی چلانا وغیرہ ساتھ ہی اس شخص کی عمر اوسطاً 20 سال کم ہو جاتی ہے۔ رشتوں پر بھی اس کا اثر پڑتاہے جس کی وجہ سے وہ لوگوں پر جلدی اعتبار نہیں کر پاتے۔ ‘‘ ڈاکٹر ساگر نے کہا کہ ”کچھ لوگ بچپن میں جب محرومی کا شکار ہوتے ہیں تو وہ یہ عہد کر لیتے ہیں کہ بڑے ہونے پر حالات کو پوری طرح بدل دیں گے اور اسی جستجو میں وہ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں، مینا کماری بھی انہیں چند شخصیات میں سے ایک تھیں۔“
تقریب کی نظامت کر رہے سنجیو اپادھیائے نے آخر میں کہا ’’مینا کماری کی زندگی ایک ایسی با کمال زندگی تھی کہ جس نے ہندوستانی سنیما کو بہت کچھ دیا۔ مینا کماری اگر کمال امروہوی کو نہ ملتیں تو شاید وہ ویسی نہ ہوتیں جیسی وہ ہوئیں اور شاید کمال امرو ہوی بھی اگر مینا کماری کو نہ ملتے تو ویسے نہ ہوتے جیسے وہ ہوئے۔ اس لئے ہم کسی ایسےنتیجے پر نہیں پہنچ سکتے ، جس میں ہم کسی ایک کی کمی نہیں نکال سکیں۔‘‘
انہوں نے آخر میں ساحر لدھیانوی کی شاعری سے تقریب کا اختتام کیا ۔
جو تار سے نکلی ہے وہ دھن سب نے سنی ہے
جو ساز پہ گزری وہ کس دل کو پتہ ہے
اشکوں میں جو پایا ہے وہ گیتوں میں دیا ہے
اس پر بھی سنا ہے کہ زمانے کو گلا ہے
آخر میں پروگرام کے نگراں کے کے کوہلی نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور کہا، ’’مینا کماری نے اتنی کامیاب اداکارہ ہونے کے باوجود جس تنگی میں اپنے آخری لمحات گزارے وہ افسوسناک ہے اور جس کا حساب کوئی نہیں دے سکتا۔‘‘
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 10 Dec 2017, 6:59 AM