مینا کماری: محبت ملی، شادی بھی ہوئی، پھر بھی تنہا تنہا…
آہستہ آہستہ ایک کامیاب اداکارہ اور ایک مشہور فلم ساز کے درمیان انا کا ٹکراؤ ہونے لگا اور مینا کماری و کمال امروہوی کے درمیان فاصلہ پیدا ہو گیا۔
پردہ سیمیں پر ادا کئے گئے اپنے مؤثر کرداروں کے دم پر انہیں ملکہ جذبات اور ٹریجیڈی کوین جیسے القاب سے نوازا گیا۔ یہ بدقسمتی ہی تھی کہ ان کی ذاتی زندگی بھی کسی ٹریجیڈی (سانحہ ) سے کم نہ تھی اور ان کے حصہ میں تنہائی، استحصال اور محرومیوں کے سوا کچھ نہیں آیا۔ یوں تو ان کے والدین بھی تھے، مشہور و معروف شخص کی وہ اہلیہ بھی بنیں اور ان کے سامنے محبت کا دعویٰ کرنے والوں کی قطار بھی لگی رہی لیکن ان کے نصیب میں تو بچپن سے ہی استعمال ہونا لکھا تھا۔ یہاں تک ان کی موت کے بعد بھی ان کے نام کا استعمال کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: مینا کماری: محرومیوں سے کامیابیوں تک ’باکمال‘ سفر
یہ کہانی ہے مہ جبیں عرف بے بی مینا عرف مینا کماری کی۔ یکم اگست 1932 کو ممبئی میں پیدا ہوئیں مہ جبیں کے والد علی بخش موسیقی کے استاد تھے ، انہوں نے کچھ فلموں میں موسیقار وں کے لئے ہارمونیم بجایا اور کچھ چھوٹے موٹے کردار بھی ادا کئے۔ گھر کا خرچ بہت مشکل سے چل پاتا تھا۔ لہذا ماں اقبال بانو نے اجتماعی رقص اور ڈراموں میں کام کرنا شروع کر دیا لیکن غربت دور نہ ہو سکی۔ مجبوراً 7 سال کی عمر میں مہ جبیں کو گھر چلانے کے لئے اداکاری کے میدان میں اتار دیا گیا۔
ان کی پہلی فلم آئی لیدر فیس (1939) جس میں انہوں نے بے بی مینا کے نام سے کام کیا۔ اس کے علاوہ بہن، غریب ، کسوٹی، ترگیہ جیسی 7-8 فلموں میں کام کیا۔ گھر کی گاڑی کسی طرح کھنچتی رہی، حالانکہ مہ جبیں کو اداکاری میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ 15 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بے بی مینا کے حسن کے چرچے ہونے لگے اور پھر بچوں کا کھیل (1946) فلم میں بے بی مینا کو بضابطہ طور پر ہیروئن بنا دیا گیا۔ اس کے بعد پیا گھر آ جا (1947) اور بچھڑے بالم (1948) جیسی فلموں میں کام کیا لیکن انہیں شہرت اسٹنٹ اور دھارمک فلموں سے حاصل ہوئی۔ ویر گھٹوت کچ (1949) ، گنیش مہما (1950)، ہنومان پاتال وجے (1951) اور لکشمی ناراین جیسی کئی فلموں میں مینا کماری نے بطور ہیروئن کام کیا۔
کہا یہ جاتا ہے کہ کسی اداکار یا اداکارہ کی کوئی ایک فلم ایسی ہوتی ہے جو ان کی زندگی کا سنگ میل ثابت ہوتی ہے ۔ 1952 میں آئی ’بیجو باورہ ‘ وہ پہلی فلم تھی جس نے مینا کماری کو ستاروں کی فہرست میں شامل کر دیا۔
مینا کماری نے 21 سال کی عمر میں خاندان کی مرضی کے خلاف اپنے سے دو گنی عمر کے کمال امروہوی سے محبت کی شادی کر لی۔ مینا کماری ،کمال امروہوی کی شاعری کی پرستار تھیں۔ اس شادی سے مینا کماری کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا یہاں تک کہ وہ ماں بھی نہیں بن سکیں۔
پہلے وہ باپ کے اشاروں پر کٹھ پتلی بنی ہوئی تھیں اور شادی کے بعد ان کی باگڈور ان کے شوہر نے سنبھال لی ۔ ان کی آمدنی کہاں جاتی تھی اور کمال امروہوی اس کا استعمال کس طرح کرتے تھے یہ جاننے کی نہ تو مینا کماری نے کبھی کوشش کی اور نہ ہی کمال امروہوی نے انہیں کبھی یہ بتایا۔ آہستہ آہستہ ایک کامیاب اداکارہ اور ایک مشہور فلم ساز کے درمیان انا کا ٹکراؤ ہونے لگا اور مینا کماری و کمال امروہوی کے درمیان فاصلہ پیدا ہو گیا۔
فاصلے بڑھنے سے قبل مینا نے کمال کے لئے ’دائرہ ‘ نامی فلم میں کام کیا۔ فلم تو کامیاب نہیں ہو پائی لیکن اپنی باکمال اداکاری کی بدولت مینا کماری ٹریجیڈی کوین ضرورکہلانے لگیں۔ فلم ’پرینیتا ‘ میں بھی سنجیدہ اداکاری کے جوہر سے مینا کماری نے سب کو حیران کر دیا۔ بعد ازاں مینا کماری کو مایوس، جذباتی اور قسمت کی ماری خواتین کے کرداروں کے لئے مثالی قرار دیا جانے لگا۔ چراغ کہاں روشنی کہاں، دل اپنا اور پریت پرائی، صاحب بی بی اور غلام، بھابھی کی چوڑیاں، دل ایک مندر اور میں چپ رہوں گی جیسی فلموں سے مینا کماری نے حساس ناظرین کو خوب رلایا۔
کمال امروہوی کی بے رخی کے دور میں ہی بھارت بھوشن ، دھرمندر، فلمکار ساون کمار اور گلزار سے مینا کماری کی قربتیں بڑھیں لیکن ان میں سے کوئی بھی انہیں وہ سکون نہیں دے سکا جس کی انہیں تلاش تھی۔ آخر کار مینا کماری نے شراب کو ہی اپنا دوست بنا لیا۔
بچپن سے کام کے بوجھ نے مینا کماری کو زیادہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں دیا، جس کا تا حیات انہیں ملال بھی رہا۔ لیکن گھر کے اردو کےماحول میں وہ کب شعر کہنے لگیں انہیں احساس بھی نہیں ہوا۔ مینا کماری کی کمال امروہوی میں دلچسپی کی ایک وجہ ان کی شاعری بھی تھی۔
مینا کماری اور کمال امروہوی کے درمیان اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ مینا نے ان کا گھر چھوڑ دیا۔ اس وقت تک کمال امروہوی نے فلم ’پاکیزہ ‘ شروع کردی تھی ، فلم کا کام بند ہوگیا۔ مینا کماری نے خود کو شاعری اور شراب کے حوالہ کر دیا۔ اب انہوں نے فلموں میں بطور معاون اداکارہ بھی کام کرنا شروع کر دیا ۔ ’دشمن ‘ اور ’میرے اپنے‘ ایسی ہی فلمیں تھیں جن میں مینا کماری نے عمر دراز خاتون کا کردار ادا کیا۔ دریں اثنا نرگس اور سنیل دت نے پاکیزہ فلم کی شوٹنگ کے کچھ حصے دیکھے۔ انہیں فلم بہت پسند آئی اور انہوں نے فلم کو مکمل کرانے کا عہد کیا۔ آخر کار کمال امروہوی اور مینا کماری کے درمیان مفاہمت کرانے میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی ۔ اس طرح فلم پاکیزہ مکمل ہو پائی اور یہ فلم مینا کماری اور کمال امروہوی کی زندگی کا نہیں بلکہ ہندوستانی سنیما کی تاریخ کا بھی سنگ میل ثابت ہوئی۔
پاکیزہ ریلیز ہونے کے ہفتہ بھر بعد ہی تنہا زندگی سے لڑتے لڑتے مینا کماری 31 مارچ 1972 کو ہار گئیں اور دنیائے فانی کو الوداع کہہ گئیں۔ جانے سے قبل مینا کماری بالی ووڈ سنیما کے آسمان کا ایسا ستارہ بن کر نمودار ہوئیں کہ موت کے 46 سال بعد بھی ان کی چمک پھیکی نہیں پڑ سکی۔
مینا کماری کی ایک غزل۔
چاند تنہا ہے، آسماں تنہا،
دل ملا ہے کہاں کہاں تنہا۔
بجھ گئی آس، چھپ گیا تارا،
تھرتھراتا رہا دھواں تنہا۔
زندگی کیا اِسی کو کہتے ہیں،
جسم تنہا ہے اور جاں تنہا،
ہمسفر کوئی گر ملے بھی کہیں،
دونوں چلتے رہے تنہا تنہا،
جلتی بجھتی سی روشنی کے پرے،
سمٹا سمٹا سا اک مکاں تنہا،
راہ دیکھا کرے گا صدیوں تک،
چھوڑ جائیں گے یہ جہاں تنہا،
مینا کماری کی غزل۔
ٹکڑے ٹکڑے دن بیتا، دھجی دھجی رات ملی،
جس کا جتنا آنچل تھا، اتنی ہی سوغات ملی۔
جب چاہا دل کو سمجھے، ہنسنے کی آواز سنی،
جیسے کوئی کہتا ہو، لے پھر تجھ کو مات ملی۔
ماتیں کیسی، گھاتیں کیا، چلتے رہنا آٹھ پہر،
دل سا ساتھی جب پایا، بے چینی بھی ساتھ ملی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 31 Mar 2018, 4:14 PM