مَنّا ڈے: کلاسیکی موسیقی کو بلندی پر لے جانے والا گلوکار

منا ڈے کلاسیکی گیتوں کے ساتھ شوخی بھرے گیتوں کے معاملہ میں بھی کسی سے کم نہیں تھے، ’اے میری زہرہ جبیں‘، ’پیار ہوا اقرار ہوا‘، ’یہ رات بھیگی بھیگی ‘ جیسے گیت اس کی مثال ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اقبال رضوی

’’دنیا میرے گائے گیتوں کو سنتی ہے اور میں مَنّا ڈے کے گیت سنتا ہوں۔ ‘‘ عظیم گلوکار محمد رفیع کا یہ جملہ ہندوستانی فلمی موسیقی میں مننا ڈے کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ ان کی گائیکی دل کو مسحور کر دینے والا وہ ہوا کا جھونکا ہے جو قریب سے گزرتا ہے تو سکون سے بھر دیتا ہے۔

تقریباً پانچ دہائیوں تک چنندہ گیت گانے والے اس گلوکار کی پیدائش یکم مئی 1919 کو کولکاتہ میں ہوئی تھی۔ خاندان کے افراد انہیں بیرسٹر کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے اور منا ڈے اسکول کے دنوں میں کشتی، باکسنگ اور فٹ بال جیسے کھیلوں میں مصروف رہتے تھے۔ اپنے چچا کے سی ڈے کی وجہ سے ان کی دلچسپی موسیقی میں بڑھی۔ جوں جوں وہ اپنے چچا کے ساتھ ان کا وقت گزرتا گیا وہ موسیقی کی گہرائیوں میں اترتے چلے گئے۔

کے سی ڈے نے کولکاتہ میں فلموں میں موسیقی دینا شروع کر دیا اور وہ پھر ممبئی چلے گئے۔ منا ڈے بھی چچا کے پاس ممبئی جا پہنچے۔ اپنے چاچا کی موسیقی کی ہدایت کاری میں انہوں نے پہلا گیت فلم تمنا (1942) میں ثریا کے ساتھ مل کر گایا۔ اس کے بعد انہیں گانے کے کئی مواقع حاصل ہوئے لیکن جب اپنی پہچان بنانے کی بات ہے تو انہیں اس کے لئے انتظار کرنا پڑا۔ سال 1950 میں فلم ’مشعل ‘ کے لئے ان کا گایا گیت ’اوپر گگن وِشال، نیچے گہرا پاتال ‘ سے ان کی شناخت بننی شروع ہوئی اور فلم بوٹ پالش (1954) میں گیت ’لپک جھپک تو آئے بدروا ‘ سے انہوں نے اپنا مقام حاصل کیا۔

ان کی کلاسیکی موسیقی (دستوری موسیقی) کے علم اور آواز کی خصوصیت کی وجہ سے فلموں میں کلاسیکی کا رنگ لئے ہوئے گیت گانے کے لئے موسیقاروں کے پاس منا ڈے سے بہتر کوئی دوسرا متبادل نہیں تھا۔ انہوں نے ایک ایسے گلوکار کا مقام حاصل کیا جس سے گیت گوانے کے لئے موسیقار کو خاص تیاری کرنی پڑتی تھی۔ ’پھول گیند وا نہ مارو‘، ’لاگا چنری میں داغ ‘، ’چھم چھم باجے رے پائليا‘، ’ایک چتر نار کر کے سنگار‘جیسے گیت سننے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ انہیں صرف منا ڈے ہی گا سکتے تھے۔

کلاسیکی گیتوں کے ساتھ ساتھ منا ڈے شوخی بھرے گیتوں کے معاملہ میں بھی اپنے وقت کے گلوکار رفیع، مکیش اور کشور سے کسی صورت میں کم ثابت نہیں ہوئے۔ ’اے میری زہرہ جبیں‘، ’پیار ہوا اقرار ہوا‘، ’یہ رات بھیگی بھیگی ‘، ’چلت مسافر موہ لیا رے پنجرے والی منیا ‘ جیسے گیت اس کی مثالیں ہیں۔ پردہ سیمیں پر اداکار کی جو شبیہ ہوتی ہے اس کے عین مطابق ہی آواز بھی تلاش کی جاتی ہے۔ پرانی فلموں میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ دوسری بات یہ کہ اگر کوئی گیت کسی کی آواز میں ہٹ ہو جاتا ہے تو سبھی اسی سے گوانا چاہتے ہیں۔

اسے مننا ڈے کی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کے وقت کے معروف اداکار جیسے دلیپ کمار، دیوانند اور شمی کپور وغیرہ کے لئے منا ڈے کو موقع نہیں دیا جاتا تھا۔ حالانکہ راج کپور منا ڈے کی آواز پر بھروسہ کرتے تھے اور انہوں نے اپنی فلموں میں منا ڈے کو متعدد مواقع فراہم بھی کئے لیکن پردے پر ان کی آواز مکیش بن چکے تھے۔ ہاں اداکار محمود اس معاملہ سے استثناء تھے اور انہوں نے اپنے گیتوں کے لئے ہمیشہ منا ڈے کو ترجیح دی۔ فلم ’پڑوسن ‘ کا گیت کا ’ایک چتر نار کر کے سنگار‘ ہمیشہ کے لئے محمود اور منا ڈے کی شناخت بن گیا۔

پھر بھی جب جب منا ڈے پر بھروسہ کیا گیا، انہوں نے یادگار گیت پیش کئے۔ منا ڈے کے گائے ’اے میرے پیارے وطن، اے میرے بچھڑے چمن‘، ’قسمیں وعدے پیار وفا سب وعدے ہیں وعدوں کا کیا‘، ’پوچھو نہ کیسے میں نے رین بتائی‘، ’ندیا چلے چلے رے دھارا‘، ’اے بھائی ذرا دیکھ کے چلو‘، ’زندگی کیسی ہے پہیلی ہائے‘ جیسے گیت چالیس پچاس سال بعد بھی مقبول ہیں۔ فلمی کلاسیکی موسیقی کو بلندیوں تک لے جانے والے منا ڈے کو اپنے وقت کے دیگر گلوکاروں کے مقابلے گانے کے مواقع بھلے ہی کم حاصل ہوئے ہوں لیکن اس سے ان کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوئی۔ منا ڈے کو سال 2007 میں ہندوستانی سنیما کے سب سے بڑے اعزاز ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ ‘ سے نوازا گیا۔

زندگی کے آخری دنوں میں منا ڈے اپنی بیٹی کے پاس بنگلورو میں رہنے لگے تھے جہاں 24 اکتوبر 2013 کو ان کا انتقال ہو گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 May 2018, 9:23 AM