بولتی آنکھوں اور فطری اداکاری کا جادوگر عرفان خان...یومِ پیدائش کے موقع پر خصوصی پیشکش
بچپن کے دنوں میں عرفان خان کرکٹر بننا چاہتے تھے اور سی کے نائیڈو ٹرافی میں ان کا سلیکشن بھی ہو گیا تھا لیکن خاندان کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے انہیں اپنی خواہش کو مارنا پڑا
عرفان خان نے اپنی زبردست اداکاری سے نہ صرف بالی ووڈ بلکہ ہالی ووڈ میں بھی اپنے ہنر کا جوہر دکھایا عرفان خان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنا مقدر خود ہی بنایا اور ممبئی جیسے شہر میں ان کا کوئی گاڈ فادر بھی نہیں تھا لیکن اپنی اداکاری کے ہنر سے انہوں نے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا تھا۔ عرفان خان کی پیدائش راجستھان کے ٹونک میں ایک عام سے کنبے میں 7 جنوری 1967 کو ہوئی تھی۔ ان کے والد کی ایک ٹائر پنچر بنانے کی دکان تھی۔
عرفان خان گھر میں بڑے بیٹے تھے تو ذمہ داریاں بھی زیادہ تھیں۔گھروالوں کو امید تھی کہ عرفان جلد برسرروزگار ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بچپن کے دنوں میں عرفان خان کرکٹر بننا چاہتے تھے اور سی کے نائیڈو ٹرافی میں ان کا سلیکشن بھی ہو گیا تھا لیکن خاندان کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے انہیں اپنی خواہش کو مارنا پڑا۔
عرفان جب گریجویشن کررہے تھے،اسی وقت ان کی توجہ ایکٹنگ کی طرف ہوئی۔ پہلے کچھ نئے اداکاروں کے ساتھ وہ اداکاری سیکھنے کی کوشش کرنے لگے۔پھر ان کی ملاقات نیشنل اسکول آف ڈرامہ (این ایس ڈی)کے ایک شخص سے ہوئی۔وہ کالجوں میں جاکر ڈرامہ کیا کرتے تھے۔عرفان بھی ان کے ساتھ ان کی ٹیم میں شامل ہوگئے اور طلبہ کے ساتھ کوریڈور میں،کلاس روم میں اور کینٹین میں ڈرامہ کرتے ہوئے ہی ایکٹنگ کرنے میں ماہر ہوگئے اوراسی سمت میں کریئربنانے کےلئے سنجیدہ بھی ہوئے۔
عرفان نے جب دہلی کے نیشنل اسکول آف ڈرامہ میں ایکٹنگ کے کورس کےلئے ایڈمشن لیا تو تھوڑے ہی وقت بعد ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ایسے میں عرفان کو گھر سے ملنے والی مالی مدد بند ہوگئی اور کچھ سہارا ان کو ملنے والی اسکالرشپ نے دیا اور ان کی ایک کلاس میٹ ستاپا سکدر نے بھی ان کی کافی مدد کی۔ کورس پورا ہونے کے بعد عرفان ستاپا کے ساتھ ممبئی آ گئے اور بعد میں دونوں نے شادی کر لی۔
عرفاں خان کے کریئر کی شروعات ٹیلی ویژن سیرئل سے ہوئی تھی۔اپنے شروعاتی دنوں میں وہ چانکیے،بھارت ایک کھوج،چندر کانتا جیسے سیریلوں میں نظر آئے۔انہوں نے اپنے سنی کریئر کی شروعات سال 1988میں ریلیز میرا نائر کی فلم ’سلام بامبے‘ میں ایک چھوٹے سے رول سے کی تھی۔
سال 1990 میں ریلیز فلم ’ایک ڈاکٹر کی موت‘ سے عرفان اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئے۔پھررفتہ رفتہ انہیں کام ملنے لگا۔دیکھتے ہی دیکھتے ایک دہائی کا سفر گزر گیا لیکن انہیں اسٹارڈم نہیں ملا۔سال 2001میں عرفان کی فلم دی واریئر اور قصور ریلیز ہوئی جو کامیاب رہیں۔
اس کے بعد 2003 میں عرفان خان کی فلم حاصل ریلیز ہوئی اور اس کے ٹھیک بعد مقبول۔ان دونوں فلموں نے انہیں وہ شہرت دلائی جس کے وہ حق دار تھے اور ان دونوں ہی فلموں کے بعد ان کے کریئر نے اچانک رفتار پکڑ لی۔سال 2007 میں ریلیز فلم ’لائف ان اے میٹرو‘ اور دی نیمسیک میں عرفان خان نے زبردست اداکاری کی اور شائقین کا دل جیت لیا۔
عرفان خان نے نہ صرف بالی ووڈ بلکہ ہالی ووڈ کی کئی فلموں میں بھی کام کیا اور اپنی اداکاری کا لوہا منوایا۔سال 2008 میں ریلیز سپر ہٹ ہالی ووڈ فلم سلم ڈاگ ملینائر میں عرفان خان نے زبردست رول ادا کیا۔اس کے علاوہ انہوں نے ہالی ووڈ فلم دی امیزنگ اسپائڈر مین ،جوراسک ورلڈ،انفرنو،اے مائیٹی ہارٹ،سینی کوڈو وغیرہ فلموں میں بھی کام کیا۔سال 2016 میں ریلیز ہوئی ہالی ووڈ فلم دی جنگل بک میں عرفان نے اپنی آواز بھی دی۔ہالی ووڈ کے مشہور ادا کار ٹام ہینکس کو یہ کہنے کےلئے مجبور ہوناپڑا کہ عرفان خان کی آنکھیں بھی اداکاری کرتی تھیں۔
سال 2011میں ہندوستانی حکومت نے عرفان خان کو پدم شری سے نوازا ۔سال 2012 میں انہیں فلم پان سنگھ تومر میں اداکاری کےلئے بہترین اداکار کا نیشنل ایوارڈ دیاگیا۔سال 2012 میں آنگلی کی فلم لائف آف پائی میں کام کرنے کا موقع ملا۔یہ فلم پوری دنیا میں سپرہٹ ہوئی۔اس کے بعد عرفان نے سال 2013 میں ریلیز ہوئی سپرہٹ فلم دی لنچ باکس میں بھی کام کیا۔
سال 2004میں انہیں فلم حاصل کےلئے بہترین ویلین کا فلم فیئرایوارڈ بھی ملا۔سال 2008 میں فلم لائن ان اے میٹرو کے لئے فلم فیئر کے بہترین معاون اداکار کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔اس کے بعد انہیں فلم ہندی میڈیم کے لئے بھی بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔
عرفان خان نے اپنے سنی کریئر میں تقریباً 90 فلموں میں کام کیا۔ان کے کریئر کی بہترین فلموں میں گناہ،فٹ پاتھ،آن:مین ایٹ ورک،چاکلیٹ،روگ،ساڑھے سات پھیرے،سنڈے ،کریزی 4،بلو،جذبہ،پیکو،یہ سالی زندگی،تھینکیو ،رائٹ یا رانگ،حصہ ،ناک آؤٹ،ایسڈ فیکٹری،نیویورک،صاحب بی بی اور گینگسٹر ریٹرنس ،ڈی ڈے،غنڈے،حیدر،تلوار،مداری،انگریزی میڈیم اور ہندی میڈیم وغیرہ شامل ہیں۔
عرفان خان کینسر کے عارضہ میں مبتلا تھے ۔ انہیں 28 اپریل 2020ء کو ممبئی کے کوکیلا بین اسپتال میں داخل کیا گیا جہاں 29 اپریل 2020ء کو انہوں نے داعی اجل کو خیرباد کہہ دیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔