مزاحیہ اداکار، سنجیدہ انسان، قابل گلوکار..کشور کمار

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

پرگتی سکسینہ

موسیقی کے لئے آج خود کار آلات کا استعمال ہونے لگا ہے۔ فلمی دنیا کے گلوکار جہاں اونچی آواز میں گیتوں کو ریکارڈ کرا رہے وہیں گلوکارائیں نیچی آواز میں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ بلخصوص فلمی دنیا میں موسیقی کا مطلب ’الیکٹرانک کی بورڈ ‘اور ’ارینجر ‘تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ ایسے دور میں جبکہ موسیقی اور شور کے درمیان فاصلہ بہت ہی کم رہ گیا ہے کشور کمار کو یاد کرنا جھلساتے موسم میں ٹھنڈی ہوا کے تازے جھونکے کی طرح ہے۔

کشور کمار کے دنیائے فانی کو الوداع کہے اتنے سال گزر چکے ہیں اس کے با وجود یہ بہترین گلوکار، قابل اداکار اور مؤثر ہدایت کار و تخلیق کار آج بھی نئی نسل کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اکیسویں صدی کے ہندی اور اردو زبان سے وابستہ نوجوانوں کے لئے محبت، جدائی اور بے وفائی سے لبریز جذبات ،کشور کمار کے نغموں کے بغیر ادھورے رہ جاتے ہیں۔

کشور دا کی عجیب و غریب شخصیت ،لوگوں کی توجہ کا مرکز تو ہوتی ہی ہے ساتھ ہی انہیں حیران بھی کر دیتی ہے۔ وہ ہر ایک کے لئے ایک علیحدہ کشور کمار تھے۔ اپنے سامعین کے لئے الگ، دوستوں کے لئے الگ اور واقفوں اور میڈیا کے لئے ایک دم مختلف تھے۔

اداکارہ شکیلہ کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے انہوں نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ جب کشور کمار سیٹ پر آتے تھے ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا تھا۔ وہ سیٹ پر اس قدر کودتے ، دوڑتے بھاگتے تھے کہ یقین کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ ایک بار انہوں نے شکیلہ سے کہا کہ وہ اپنی بیوی روما کو اس وجہ سے طلاق دے رہے ہیں ،کیوں کہ ان کا رات کا کھانہ میز پر چھوڑ کروہ سونے چلی گئی تھی اور جب وہ گھر پہنچے تو دیکھا وہ کھانہ بلی کھا رہی ہے۔ اب اس بات پر بھلا کون یقین کر سکتا تھا؟

بالکل اسی طرح ایک بار آر ڈی برمن نے بھی ایک واقعہ بیان کیا تھا کہ کس طرح وہ کشور سے پہلی دفعہ ملے۔ ایک بار انہوں نے دیکھا کہ اسٹوڈیو کی دیوار پر مفلر اور ٹوپی لگائے ایک شخص بیٹھاہوا ہے اور آنے جانے والوں کی بندر کی طرح نقل کر رہا ہے۔ جب وہ اسٹوڈیو کے اندر جانے لگے تو وہ شخص کود کر نیچے اترا اور ریکارڈنگ روم میں آ گیا۔ ریکارڈنگ کے درمیان وہ اپنا گانا گانے لگے اور جب ان سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں تو بولے ’’میں یتیم ہوں میری دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ پلیز مجھے ایک چانس دے دیجئے ۔‘‘ اصل زندگی میں بھی نوٹنکی کرنے والے ، ایسے تھے کشور دا۔

کشور کمار نے اپنی فلم ’ہاف ٹکٹ ‘ کا گانا ’آ کے دل پہ لگی...‘ کو مر د اور عورت دونوں کی آواز میں گایا تھا اور ایسا وہ ہی کر سکتے تھے کوئی دوسرا نہیں۔ ’ہاف ٹکٹ ‘میں ان کی کامیڈی اور مدھو بالا کے ساتھ ان کی کیمسٹری منفرد تھی۔



مزاحیہ اداکار، سنجیدہ انسان، قابل گلوکار..کشور کمار

جب کشور کمار لائیو پرفارمنس کے لئے اسٹیج پر آتے تھے تو گویا اسٹیج زندہ ہو جاتا تھا۔ وہ صرف پرفارمنس ہی نہیں دیتے تھے بلکہ ناظرین سے براہ راست تعلق بھی قائم کرتے تھے۔ اسٹیج پر ناچتے کودتے ،جتنی اینرجی کے ساتھ اور جتنی دیر تک کشور کمار پرفارم کر سکتے تھے اتنا شاید ہی کوئی دوسرا گلوکار کر پائے۔

’میں ہوں جھوم جھوم گھونگھرو ‘ سے جب انہوں گیتوں میں نیا انداز شروع کیا جسے ’یوڈلنگ ‘کہتے ہیں تو انہیں سامعین نے ہاتھو ں ہاتھ لیا۔ گائیکی میں ان کی کوئی رسمی تربیت نہیں ہوئی تھی لیکن انہوں نے اپنے منفرد اور انوکھے انداز سے ایسے وقت میں بطور گلوکار اپنی پہچان قائم کی جبکہ تقریباً تمام گلوکار ’کلاسیکل میوزک ‘ کے تربیت یافتہ، تجربہ کار اور ماہر تھے ۔

آر ڈی برمن کشور دا کے ساتھ اپنے والد ایس ڈی برمن کی روایت پر عمل کرتے تھے۔ ایس ڈی برمن گیتوں کی ریکارڈنگ سے قبل دھن کا ٹیپ گلوکار کے پاس بھیج دیتے تھے۔ آر ڈی بھی کشور کو دھن کا ٹیپ ریکارڈنگ سے پہلے بھیجنے لگے تاکہ گلوکار اس کے مطابق اچھے سے ریاض کر لے۔ یہ وجہ تھی کہ آر ڈی برمن کے ہر گیت میں کشور کمار نے جان پھونک دی۔ ان دونوں کے ریکارڈ کئے ’زندگی کے سفر میں گزر جاتے ہیں جو مقام‘ یا ’او مانجھی رے ...‘ گائیکی کے سنگ میل ثابت ہوئے ،جن سے آج بھی گلوکار ترغیب حاصل کرتے ہیں اور مستقبل میں بھی کرتے رہیں گے۔



مزاحیہ اداکار، سنجیدہ انسان، قابل گلوکار..کشور کمار

اسٹیج پر اور ریکارڈنگ کے وقت بھلے ہی کشور کمار کا انداز مزاحیہ رہتا ہو لیکن جو فلمیں انہوں نے بنائی وہ کافی سنجیدہ تھیں۔کشور کمار کی ’دون گگن کی چھاؤں میں‘ ہو یا ’دور کا راہی ‘ دونوں کا ہی انداز سنجیدہ تھا۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر فن مولا کشور دا کو محض ایک ماہر کمیڈین یا بہترین گلوکار کے دائرے میں ہی محدد نہیں کیا جا سکتا ۔ کشور دا ایک ایسی گہری اور الجھی ہوئی شخصیت کے مالک تھے جس کی گائیکی اور کامیڈی میں بس اس کی جھلک بھر ہی دکھائی دیتی تھی۔

کشور کمار نے 4 شادیاں کی تھیں اور محکمہ انکم ٹیکس پر دئیے گئے اپنے بیانوں کے سبب وہ ہمیشہ تنازعات میں گھرے رہے۔ میڈیا کو انٹرویو دیتے وقت کئی پردوں میں چھپا رہنے والا سنجیدہ مگر مزاحیہ شخص ،عمر کے آخری حصہ میں ایم پی کے کھنڈوا میں واقع اپنے آبائی گھر جانے کی بات کرتا رہا لیکن جا نہیں سکا ۔ ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں جو اپنے گھر کا رستہ بھول کر زندگی کے ہر موڑ پر گھر تلاشنے کے دوران اپنے فن کی بدولت دوسرے کے لئے ایسی مثالیں قائم کر جاتے ہیں جو آنے والی نسلوں کے لئے نشیب و فراض کے دوران سہارا ثابت ہوتی ہیں۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Oct 2017, 3:18 PM