فلموں میں سماج کی حقیقت دکھانے والا فلم ساز۔ خواجہ احمد عباس

خواجہ احمد عباس ہندوستانی سنیما کی ایک سرکردہ شخصیت تھے۔ انہوں نے کئی مثبت فلموں کی کہانیاں لکھیں جن میں سے کئی نہ صرف سپر ہٹ ثابت ہوئیں بلکہ ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں سنہرے الفاظ میں درج ہوئیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اقبال رضوی

خواجہ احمد عباس ایک ایسے فلم ساز تھے جنہوں کئی شاندار فلمیں تخلیق کیں، جنہیں ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے تعریف ملیں۔ ان کی کئی فلمیں ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں سنہرے الفاظ میں درج ہوئیں، لیکن آج خواجہ احمد عباس کو ایک فلم ساز کے طور پر بھلا دیا گیا ہے۔

خواجہ احمد عباس کی پیدائش 1914 کو پانی پت میں ہوئی تھی۔ 1934 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) سے تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی وہ دہلی سے شائع ہونے والے اخبار ’نیشنل سیل‘ اور علی گڑھ سے شائع ہونے والے اخبار ’علی گڑھ اوپینین‘ میں کالم لکھنے لگے۔ پھر انہوں نے ’بامبے کرانیکل‘ میں لکھنا شروع کیا، جہاں انہیں فلموں کے تجزیہ (ریویو) لکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس سے فلمی دنیا میں ان کی شہرت ہونے لگی۔

ابتدائی دور میں فلموں کے تجزیہ لکھنے کے لئے عباس نے تقریباً 300 ملکی و غیر ملکی فلمیں دیکھیں۔ ان کا تجزیہ لکھنے کا انداز جداگانہ تھا جو کافی لوگوں کو پسند نہیں آتا تھا۔ وی شانتا رام کی فلم ’آدمی‘ کی ریلیز کی تاریخ کئی بات ٹال دی گئی۔ اس پر انہوں نے لکھا کہ شاید شانتا رام کا آدمی پونا سے پیدل چل کر بمبئی آرہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ راہ میں تھک کر کسی پیڑ کے نیچے سو گیا ہے۔ اس تبصرہ سے شانتا رام بہت ناراض ہوئے۔ لہذا جب ’آدمی‘ ریلیز ہوئی تو فلمی تجزیہ کار ہونے کی حیثیت سے خواجہ کو فلم دیکھنے کا پاس نہیں بھیجا گیا۔ لیکن عباس نے اپنے پیسے خرچ کر کے فلم ’آدمی‘ 18 مرتبہ دیکھی اور فلم کی تعریف میں 7 کالم کا لمبا چوڑا مضمون لکھا۔

فلموں میں سماج کی حقیقت دکھانے والا فلم ساز۔ خواجہ احمد عباس

خواجہ احمد عباس کے بے باک تجزیوں سے ناراض اکثر فلم ساز ان پر طنز کیا کرتے تھے کہ فلم کا تجزیہ لکھنا آسان ہے لیکن فلم بنانا انتہائی مشکل۔ خواجہ نے اسے ایک چیلنج کی طرح قبول کیا اور ایک کہانی لکھ ڈالی۔ بامبے ٹاکیز نے اس کہانی پر ’نیا سنسار(1941)‘ نام سے فلم بنائی۔ اشوک کمار اور رینوکا دیوی کی اداکاری والی یہ فلم کافی کامیاب ہوئی اور فلم نے سلور جوبلی منائی۔ اس کے بعد خواجہ نے تین مزید کہانیاں لکھیں لیکن جب فلمیں ریلیز ہوئیں تو خواجہ کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جو کہانی انہوں نے لکھی تھی اس کے کچھ حصوں کو چھوڑ کر سب کچھ تبدیل کر دیا گیا۔ انہوں نے اس کی شکایت جب ڈائریکٹروں سے کی تو انہیں جواب ملا کہ اپنی لکھی کہانی پر اگر ہوبہو فلم دیکھنا چاہتے ہو تو فلم کی ہدایت کاری خود کر لو۔

خواجہ نے اس چیلنج کو بھی قبول کر لیا۔ اپنی ہی کہانی پر انہوں نے 1946 میں فلم ’دھرتی کے لال‘ بنائی۔ اس فلم کو ہندوستان کی پہلی جدید حقیقت پر مبنی فلم قرار دیا گیا۔ 1951 میں خواجہ نے اپنی مرضی کی فلمیں بنانے کے لئے نیا سنسار نام سے ایک فلم کمپنی بنائی جس کے بینر تلے انہوں نے امیتابھ بچن کی اداکاری والی ’سات ہندوستانی (1970)‘ سمیت 13 فلمیں بنائیں۔

خواجہ احمد نے چاہے صحافت کی ہو، ادبی تخلیق کی ہو یا پھر فلم بنائی ہو انہوں نے مخالف حالات میں بھی سماجی ذمہ داریوں سے منہ نہیں موڑا۔ اپنی ہدایت کاری میں انہوں نے غریبی، قحط، چھوا چھوت، فرقہ پرستی اور غیر مساوات جیسے ایشوز کو مرکز میں رکھا۔ ان کی ہر بنائی ہوئی فلم کے پیچھے ایک مقصد رہا کرتا تھا۔

انہوں نے فلم ’راہی‘ میں چائے باغان میں مزدوری کرنے مزدوروں کے حالات دکھائے تو ’گیارہ ہزار لڑکیاں (1962)‘ میں کام کرنے والی خواتین کی پریشانوں کو اجاگر کیا۔ ’شہر اور سپنا (1963)‘ میں فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے والوں کے مسائل کی منظر کشی کی اور ’بمبئی رات کی باہوں میں (1967)‘ بنا کر بڑے شہروں میں رات میں چلنے والے غیر قانونی دھندوں کو دکھایا۔ اسی ترتیب میں انہوں نے نکسلزم پر مبنی فلم ’دی نکسلائٹ (1980)‘ بنائی۔

بغیر نغموں کی فلمیں بنانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن سب سے پہلے خواجہ نے ’منّا‘ نام سے ایک بغیر نغموں والی فلم بنا کر سب کو حیرت میں ڈال دیا۔

فلموں میں سماج کی حقیقت دکھانے والا فلم ساز۔ خواجہ احمد عباس

خواجہ احمد عباس نے تقریباً 40 فلموں کی کہانیاں اور اسکرین پلے لکھے۔ اپنے بینر کے علاوہ انہوں نے سب سے زیادہ فلمیں اپنے مداح راج کپور کے لئے لکھیں۔ راج کپور نے ان سے 1951 میں فلم آوارہ لکھوائی۔ یہیں سے خواجہ اور راج کپور کی دوستی کا آغاز ہوا جو ’شری 420 (1955)‘ اور ’جاگتے رہو (1956)‘ سے ہوتی ہوئی راج کپور کی موت تک قائم رہی۔ اس بیچ خواجہ نے راج کپور کے لئے ایک پوری طرح کمرشیل فلم ’بابی (1973)‘ لکھی ، لیکن اس میں بھی وہ اپنے سماجی مساوات کا نظریہ قائم کرنے میں کامیاب رہے۔

راج کپور کے ساتھ مل کر خواجہ نے ہندی سنیما کو نئی سمت دی لیکن اس کا تمام کریڈٹ محض راج کپور کو ہی دیا جاتا ہے۔ یکم جون 1987 کو اس دنیا کو الوداع کہنے کے عین قبل تک بیماری سے جدو جہد کے دوران بھی خواجہ اپنی فلم ’ایک آدمی‘ کی ڈبنگ کا کام مکمل کرنے میں مصروف تھے۔ یہ فلم ان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی۔

فلمی دنیا کے سب سے زیادہ تجربہ کار اور دانشوران اور مبصرین ان کی فلموں کو معمولی دستاویزی فلم ہی مانتے رہے ہیں۔ خواجہ احمد عباس کی فلموں کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا، اس فلم ساز کو فلمی دنیا نے وہ احترام کبھی نہیں دیا جس کے وہ اصل مستحق تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔