الوداع خیّام! ’کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی‘

محمد ظہور خیام ہاشمی صاحب کی پچاسوں سریلی اور رومانی موسیقی سے سجے گانے ہیں جنھیں سن کر دل کو سکون و قرار ملتا ہے۔ ان کی موسیقی دماغ میں ایک مخملی سا احساس جگا کر ماضی میں لے جاتی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اقبال رضوی

فلم بازار (1982) کے لیے حسن کمال نے ایک نغمہ لکھا تھا ’کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی، گزرتے وقت کی ہر لہر ٹھہر جائے گی‘۔ اس نغمہ کو لازوال بنایا موسیقار خیام نے۔ حسن کمال کی یہ سطریں آج سب سے زیادہ خیام صاحب کی ہر بات یاد دلا رہی ہے۔ خاص کر پچاسوں سریلی اور رومانی موسیقی، جنھیں سن کر آپ چاہیں جو کچھ بھی محسوس کریں، لیکن یہ دل کو سکون و قرار ضرور دیتا ہے۔ ان کی موسیقی دماغ میں ایک مخملی سا احساس جگا کر ماضی میں لے جاتی ہے۔ وہ ماضی جو شدت سے یاد آتا ہے۔

جس موسیقی کو خیام نے اپنی زندگی، اپنا وجود بنایا تھا اس سے رشتہ جوڑنے میں شروعات میں بہت مشقت کرنی پڑی۔ جالندھر کے روہن گاؤں میں پیدا ہوئے خیام کا نام محمد ظہور ہاشمی تھا۔ بچپن سے سنیما نے گہرا اثر ڈالا لیکن گھر والوں کی بندشیں تھیں، جس سے بچنے کے لیے وہ اپنے چچا کے گھر دہلی آ گئے۔ یہاں انھیں پنڈت امر ناتھ اور حسن لال بھگت رام سے موسیقی سیکھنے کا موقع ملا۔ لیکن 17 سال کی عمر میں خیام کو یقین ہونے لگا کہ وہ ہیرو بن سکتے ہیں۔ لہٰذا وہ لاہور جا پہنچے۔ وہاں کام کی تلاش میں بھٹکنے کے دوران مشہور موسیقار جی ایم چشتی سے ملاقات ہوئی، جو اس وقت ایک گانے کی موسیقی تیار کر رہے تھے۔ خیال نے گانا سنا اور فوراً اپنی آواز میں سنا دیا۔


چشتی خیام کی آواز اور موسیقی کی سمجھ سے اتنا متاثر ہوئے کہ خیام کو اپنا اسسٹنٹ بنا لیا۔ چھ مہینے بعد گھر والوں کے بہت بلانے پر خیام واپس گھر لوٹ آئے اور والد کے دباؤ میں فوج میں داخل ہو گئے۔ تین سال بعد انھوں نے فوج کی ملازمت چھوڑ دی اور واپس ممبئی جا پہنچے۔ اس بار اپنے گرو حسن لال بھگت رام کے اسسٹنٹ بن گئے، جنھوں نے خیام سے زہرا بائی انبالے والی کے ساتھ فلم رومیو اور جولیٹ میں ایک گانا گانے کا موقع دیا۔ ہیرو بننے کا خواب دیکھنے والے خیام کو گلوکاری سے زیادہ دلچسپی گانوں کی دھُن بنانے میں تھی۔ اس لیے وہ موسیقاری کرنے پر توجہ دینے لگے۔

1948 میں انھوں نے عزیز خان اور ورما جی کے ساتھ مل کر شرما جی کے نام سے فلم ’ہیر رانجھا‘ میں موسیقی دی۔ اس کے بعد شرما جی کے نام سے ’پردہ‘ (1948) سمیت کچھ فلموں میں موسیقی دی۔ 1953 میں انھوں نے خیام کے نام سے فلم فٹ پاتھ میں موسیقی دے کر موسیقاروں کو بھی حیران کر دیا۔ دلیپ کمار اور مینا کماری کی اس فلم کے طلعت محمود کے گائے نغمہ ’شامِ غم کی قسم آج غمگیں ہیں ہم‘ کو آج بھی سنا جاتا ہے۔ 1954 میں ان کے نام ایک فلم ’دھوبی ڈاکٹر‘ بھی درج ہے۔ اسی طرح اس سال دھنی رام کے ساتھ مل کر انھوں نے ’گل بہار‘ میں بھی موسیقی دی۔ 1955 میں ان کی ایک فلم آئی لاتار کا چور۔ لیکن اس سے کچھ پیسوں کے علاوہ خیام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔


اس دوران شاعری کی گہری سمجھ رکھنے والے خیام کے ساحر لدھیانوی، جاں نثار اختر اور حسرت جے پوری سے مضبوط رشتے بن چکے تھے۔ ساحر کی ان دنوں فلمی دنیا میں طوطی بول رہی تھی۔ ساحر کے کہنے پر خیام کو راج کپور کی فلم ’وہ سبھی کبھی تو آئے گی‘ میں موسیقاری کی ذمہ داری دلوائی۔ یہ فلم خیام کی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوئی۔ اس میں مکیش کے گائے دو نغمے ’وہ صبح کبھی تو آئے گی‘ اور ’چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا‘ بہت مقبول ہوئے۔

60 کی دہائی میں خیام نے ’شعلہ اور شبنم‘ میں پھر یادگار گانوں کی دھنیں بنائیں۔ اس کا ایک گانا ’جیت ہی لیں گے بازی پیار کی‘ کیسے بھلایا جا سکتا ہے۔ اور ’آخری خط‘ جیسی فلموں میں یادگار گیت دیے۔ لیکن اسی دور میں بمبئی کی بلی اور بارود جیسی فلمیں بھی کرنی پڑیں جنھیں کوئی یاد نہیں کرتا۔


دھیمی آواز میں کم بولنے والے خیام کسی گلوکار یا بڑے فلمکار کے خیمے میں کبھی شامل نہیں ہوئے، یہی انھیں کم فلمیں مل پانے کی ایک بڑی وجہ تھی۔ 1962 میں چین جنگ کے دوران خیام کو دو بار فلمی گانوں کی دھن تیار کرنے کا موقع ملا۔ اس میں ایک گانا ساحر نے لکھا تھا ’وطن کی آبرو خطرے میں ہے‘، اور دوسرا جاں نثار اختر نے ’آواز دو ہم ایک ہیں‘۔ فلمکار محبوب نے یہ گانا دلیپ کمار، راج کمار اور راجیندر کمار پر فلمائے، جسے فلم ڈویژن نے ملک بھر کے سنیما گھروں میں نشر کیا۔ دونوں گانے ہِٹ ہو گئے اور حب الوطنی کا جذبہ جگانے میں اہم کام کیا۔ لیکن خیام کے پاس فلموں میں کام ملنے کے مواقع کم ہوتے جا رہے تھے۔

اس کے بعد خیام نے پرائیویٹ البم کے لیے موسیقی تیار کرنے میں اپنا کافی وقت لگا دیا۔ سی ایچ آتما نے خیام کی موسیقی سے سجی کئی غزلیں ان البم کے لیے گائیں۔ خیام کا تیار کیا گیا سدرشن فاکر کی غزلوں کا البم فاکر بھی پسند کیا گیا۔ 1976 میں ایک بار پھر خیام کو ساحر کے ساتھ فلم ’کبھی کبھی‘ میں جوڑی بنانے کا موقع ملا اور قسمت شادی اسی فلم کا انتظار کر رہی تھی۔ ’کبھی کبھی‘ میں دی گئی موسیقی کی کامیابی تاریخ بن چکی ہے۔ اس کے بعد تو شہرت اور کامیابی مچل مچل کر 50 سال کے ہو چلے خیام کے قدم چومنے لگی۔


80 کی دہائی فلم موسیقی میں خیام کی دہائی کہلائے تو غلط نہیں ہوگا۔ نوری (1980)، تھوڑی سی بے وفائی (1981)، امراؤ جان اور بازار (1982) اور رضیہ سلطان (1984) تو میوزیکل ہٹ فلمیں ثابت ہوئیں۔ امراؤ جان کے نغمے تو 37 سال بعد بھی اتنے ہی مقبول ہیں۔ خیام کو 80 کی دہائی میں 6 بار فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ امراؤ جان کے لیے انھیں نیشنل ایوارڈ بھی ملا۔

خیام کی شریک حیات جگجیت کور بھی اچھی گلوکارہ ہیں۔ انھوں نے خیام کے ساتھ کچھ فلموں، مثلاً ’بازار‘، ’شگون‘ اور ’امراؤ جان‘ میں گانے گائے ہیں۔ ’تم اپنا رنج و غم اپنی پریشانی مجھے دے دو‘ (شگون) گا کر تو وہ فلم موسیقی کی تاریخ میں زندہ جاوید ہو چکی ہیں۔


اسے وقت کا ستم کہیں یا لوگوں کی سوچ میں آئی تبدیلی کہ اتنی کامیابیوں کے باوجود خیام کو 1985 کے بعد فلموں میں موسیقی دینے کے مواقع بہت کم ملے۔ اس کا انھیں کوئی ملال بھی نہیں تھا۔ کیونکہ وہ نسل در نسل زندہ رہنے والے نغموں کو موسیقی سے سجا چکے تھے۔ سکون سے زندگی گزار رہے خیام تین سال پہلے اس وقت جیتے جی مر گئے جب ان کے اکلوتے بیٹے کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہو گئی۔ اسی وقت سے وہ سبھی سے دور دور رہنے لگے تھے اور پھر 19 اگست 2019 کی شب خاموشی کے ساتھ سبھی کو تنہا چھوڑ کر اس دنیائے فانی کو الوداع کہہ گئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 Aug 2019, 10:10 AM