کے آصف نے ’مغل اعظم‘ کے لئے پیسہ پانی کی طرح بہایا
مدھوبالا کے سامنے انار کلی کا کردار ادا کرنے کی تجویز پیش کی گئی اور اکبر کے کردار کے لئے پرتھوی راج کپور کو منتخب کیا گیا۔ اس طرح 1951میں ایک بار پھر مغل اعظم کی فلم سازی کا کام شروع ہوا۔
بالی ووڈ میں فلم ساز کے آصف کو جن کا پورا نام آصف کریم تھا کو بالی ووڈ کی دنیا میں ایک فلمی ہستی کے طور پر یاد کیا جاتا هے جنهوں نے تین دہائیوں پر محیط اپنے فلمی کیریئر میں اپنی فلموں کے ذریعے فلم بینوں کے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑے۔
کے آصف کا اپنا فلمی کیریئر بظاہر تین چار فلموں تک ہی محدود ہے لیکن ان کے اندر کام کرنے کا جو جذبہ تھا وہ اتنی شدت سے ابھرکر سامنے آتا تھا کہ فلم بینوں کے دلوں پر نقش ہو جاتا تھا۔ وہ اپنے کام کو بے نقص رکھنے میں اس قدر استغراق سے کام لیتے تھے کہ اکثر ان پر سست رفتاری کا الزام بھی لگتا رہا جس کی انہوں نے کبھی پروا نہیں کی اور جب بھی ان کی فلم پردہ سیمیں کی زینت بنی تو ایک عہد کو متاثر کر گئی۔
کے آصف نے 14 جون 1922 کو اترپردیش کے اٹاوہ میں ایک درمیانے طبقے کے مسلم خاندان میں آنکھیں کھولیں۔ چاليس کی دہائی میں وہ اپنے ماموں جان نذیر کے پاس ممبئی آ گئے جہاں ان کی درزی کی دکان تھی۔ ان کے ماموں فلموں میں ملبوسات سپلائی کیا کرتے تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے چھوٹے بجٹ کی ایك دو فلمیں بھی بنائیں۔ اس طرح کے آصف ماموں کا ہاتھ بٹانے لگے۔ انہیں اپنے ماموں کے ساتھ فلم اسٹوڈیو جانے کا موقع ملنے لگا۔ دھيرے دھیرے ان کے اندر فلموں سے متعلق دلچسپی بڑھتی گئی۔
کے آصف سليم اور اناركلی کی محبت کی کہانی سے کافی متاثر تھے۔ فلموں سے دلچسپی بڑھنے پر وہ اس کہانی کو پردہ سیمیں پر لانے کا خواب دیکھنے لگے۔ 1945 میں بطور ڈائریکٹر انہوں نے فلم ’پھول‘ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ پرتھوی راج کپور، ثریا اور درگا کھوٹے جیسے بڑے ستاروں والی یہ فلم باکس آفس پر سپر ہٹ ثابت ہوئی۔
اس فلم کی کامیابی کے بعد کے آصف نے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی ہمت پیدا کی اور ’’مغل اعظم‘‘ بنانے کا فیصلہ کیا کرداروں کے انتخاب کا مرحلہ آسان نہ تھا۔ کے آصف کو کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ابتدا میں انہوں نے شہزادہ سلیم کے کردار کےلئے چندر موہن کو اور انارکلی کے کردار کے لئے اداکارہ ویتا کے علاوہ اکبر کے کردار کے لیے سپرو کا انتخاب کیا۔
چندرموہن کی 1946 میں بے وقت موت ہو گئی۔ اس کے بعد انارکلی کے کردار کے لیے نرگس اور سلیم کے کردار کے لئے دلیپ کمار کو منتخب کیا لیکن سپرو نے جو نرگس کے ساتھ فلموں میں بطور اداکار کام کر چکے تھے، اکبر کا کردار نبھانے سے انکار کر دیا۔ بعد میں اداکارہ نرگس نے بھی فلم میں کام کرنے سے انکار کر دیا۔ تب مدھوبالا کے سامنے انار کلی کا کردار ادا کرنے کی تجویز پیش کی گئی اور اکبر کے کردار کے لئے پرتھوی راج کپور کو منتخب کیا گیا۔ اس طرح 1951میں ایک بار پھر مغل اعظم کی فلم سازی کا کام شروع ہوا۔
کے آصف نے محض 2 فلموں کی مکمل طور پر ہدایت کاری کی اس کے باوجود ان کی قابلیت کا لوہا آج بھی مانا جاتا ہے۔ فلم مغل اعظم سے 15 سال قبل انہوں نے ’پھول‘ بنائی تھی۔ ان کی دو فلمیں ’سستا خون مہنگا پانی ‘ اور ’خدا اور محبت ‘ ادھوری ہی رہ گئیں۔
کے آصف نے مغل اعظم کے ایک گیت ’جب پیار کیا تو ڈرنا کیا‘ کو فلمانے میں 10 لاکھ روپے خرچ کر ڈالے جبکہ اس دور میں اتنی رقم میں پوری فلم تیار ہو جایا کرتی تھی۔ نوشاد نے 105 گیتوں کو خارج کر کے یہ گیت انتخاب کیا تھا۔ اس گیت میں جو گونج چاہیے تھی جب وہ نہیں مل پائی تو لتا منگیشکر سے باتھ روم میں یہ گیت ریکارڈ کرایا گیا۔ مغل اعظم کے ایک دوسرے گیت ’اے محبت زندآباد ‘ کے لئے محمد رفیع کے ساتھ 100 گلوکاروں نے کورس گایا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ کے آصف نے اپنی 16 سال کی کمائی اس فلم میں خرچ کر دی تھی۔
اس سے منسلک بھی ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ موسیقار نوشاد نے ایک لاکھ روپے ایڈوانس کی پیش کش کے باوجود اپنی مصروفیت کی وجہ سے اس فلم کی موسیقی ترتیب دینے سے انکار کر دیا تھا۔ كےآصف ہر قیمت پر فلم میں نوشاد سے کام لینا چاہتے تھے۔ انہوں نے جب نوشاد کو کام کرنے کے لئے اور روپیوں کا لالچ دیا تو وہ پلٹ کر بولے کہ ’’کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پیسے سے ہر چیز خریدی جا سکتی ہے اور آپ ہر چیز خرید لیں گے۔ آپ اپنے پیسے واپس لے لیں میں فلم نہیں كروں گا۔‘‘ اس پر آصف نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا ’’دیکھتا ہوں کس طرح نہیں کریں گے۔ اتنے پیسے دوں گا کہ آج تک کسی نے نہیں دیئے ہوں گے۔‘‘
اس کے بعد آصف نے جب اور پیسہ بڑھانے کے لئے اشارہ کیا تو نوشاد نے غصے میں آکر نوٹوں کا بنڈل اس طرح پھینکا کہ پورے کمرے میں نوٹ ہی نوٹ بکھر گئے۔ نوشاد کی بیوی اور نوکر نے سارے نوٹ اٹھا لئے تو نوشاد نے کہا ’’اچھا آصف صاحب، آپ اپنے پیسے اپنے پاس رکھ لیجئے ہم فلم میں ساتھ کام کریں گے۔‘‘
کے آصف نے مغل اعظم میں تان سین کی آواز کے لئے بڑے غلام علی کو بمشکل تیار کیا۔ اس کے عوض میں انہوں نے بڑھے غلام علی کو 25 ہزار رپے محنتانہ دیا جبکہ اس وقت محمد رفیع محض 300 روپے محنتانہ وصول کرتے تھے۔ 1960 میں جب مغل اعظم منظر عام پر آئی تو اس نے باکس آفس کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔ فلم کی موسیقی بے انتہا مقبول ہوئی۔
فلم ’مغل اعظم‘ کی کامیابی کے بعد كےآصف نے راجندر کمار اور سائرہ بانو کے ساتھ ’سستا خون مہنگا پانی‘ بنانی شروع کی لیکن کچھ دنوں کی شوٹنگ ہونے کے بعد انہوں نے اس فلم کو بند کر دیا اور گرودت اور نمی کے ساتھ لیلی مجنوں کی کہانی پر مبنی فلم ’محبت اور خدا‘ کی عکس بندی شروع کردی۔
گرودت کی 1964 میں بے وقت موت کے بعد گرودت کی جگہ اداکار سنجیو کمار کو کام کرنے کا موقع ضرور دیا لیکن ان کا یہ خواب پورا نہیں ہوا اور 9 مارچ 1971 کو دل کا دورہ پڑنے سے وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ کے آصف کی بیوی اختر کی کوشش سے یہ فلم 1986 میں کسی طرح ریلیز کر دی گئی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 09 Mar 2018, 11:56 AM