بالی ووڈ ہی نہیں ہر برادری کے لوگ خوفزدہ ہیں: جاوید اختر
کچھ آرٹ ایسے ہوتے ہیں جن کا مقصد صرف تفریح ہوتا ہے اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو معاشرہ و سماج کی برائیوں کو منظر عام پر لانے کے ساتھ ساتھ کئی ایشوز پر دعوت فکر دیتے ہیں: شبانہ اعظمی
”کوئی خیال ایسا نہیں جس پر نظم نہ لکھی جائے یا مصوری نہ ہو سکے یا کسی دیگر فن میں نہ ڈھل سکے۔ اگر ایسا کوئی خیال ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس خیال میں ہی کوئی کھوٹ ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ مختلف نظریات اور تحریک سے تعلق رکھنے والے بے شمار شاعر، مصور اور دیگر فنون سے تعلق رکھنے والے فنکار ہیں جن کی شہرت دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچی، لیکن فاشزم کی تحریک نے آج تک کوئی شاعر یا مصور نہیں دیا تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس خیال میں ہی کچھ عیب ہے۔“ ان خیالات کا اظہار مشہور و معروف شاعر اور بالی ووڈ کی مایہ ناز شخصیت جاوید اختر نے ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے لٹریری فیسٹیول کے دوران ایک ’پینل ڈسکشن‘ میں کیا۔ اس تقریب میں سامعین سے مخاطب ہوتے ہوئے انھوں نے اس وقت ملک میں پیدا ماحول سے متعلق کہا کہ ”ملک میں خوف کے پھیلے ماحول سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ فلم برادری ہی نہیں ہر شعبہ کے لوگ خوفزدہ ہیں۔ تین طلاق کے معاملہ یا مسلم پرسنل لاءسے متعلق کسی معاملے کو لے لیجیے۔ اگر مسلمانوں کو ووٹنگ کرنے کے لیے کہا جائے گا تو وہ مسلم پرسنل لاءبورڈ کے خلاف ہی ووٹنگ کریں گے لیکن انھیں کسی مجلس میں ہاتھ اٹھانے کے لیے کہا جائے گا تو وہ ہاتھ نہیں اٹھائیں گے۔ اسی طرح ہر طبقہ کسی نہ کسی طرح سے خوفزدہ ہے۔“
فلم ’پدماوتی‘ سے متعلق پیدا تنازعہ کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے جاوید اختر نے کہا کہ ”جہاں تک فلم ’پدماوتی‘ کی بات ہے، ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ہے کہ کسی فلم کی مخالفت ہو رہی ہے۔ ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آپ پہلے اس طرح کسی فلم کے حق میں کھڑے ہوئے ہیں؟ فلم ’فائر‘ پر پابندی عائد کی گئی اور اسی طرح فلم ’قصہ کرسی کا‘ کے پرنٹس کو جلا دیا گیا، اس وقت آپ نے آواز اٹھائی؟ کتنے لوگوں نے ان فلموں کے حق میں احتجاج کیا؟“ انھوں نے موجود سامعین سے مزید یہ بھی سوال کیا کہ”اگر آپ فلم ’پدماوتی‘ کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں، تو کیا آپ اس ڈرامہ کے خلاف بھی مظاہرہ کر رہے ہیں جو ’ناتھو رام گوڈسے‘ کی تعریف میں بنایا گیا ہے؟ لوگ تعصب سے کام لینا چھوڑ دیں گے تو کئی مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ اس لیے اپنی سوچ اور اپنا ذہن بدلنا ضروری ہے۔“ جاوید اختر نے احتجاجوں اور مظاہروں کا صحیح استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ”احتجاج کرنا غلط نہیں ہے۔ غلطی تب ہوتی ہے جب بغیر سوچے سمجھے احتجاج کیا جاتا ہے۔ اگر لوگ ’پہلے تولو پھر بولو‘ والی کہاوت پر عمل کرنے لگیں تو اظہارِ رائے کی آزادی سے مثبت چیزیں سامنے آ سکتی ہیں۔ ورنہ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر منافرت اور فرقہ پرستی کا زہر ماحول میں پھیلنے کا اثر ہر طبقہ پر ہوگا۔“
’نیشنلزم اینڈ آرٹس‘ کے عنوان سے منعقد اس پینل ڈسکشن میں معروف اداکارہ شبانہ اعظمی بھی شریک ہوئیں۔ انھوں نے تقریب میں موجود لوگوں کو بتایا کہ ”میرے والد کیفی اعظمی معروف شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ پروگریسیو رائٹرس ایسو سی ایشن سے جڑے رہے ہیں اور میری والدہ شوکت کیفی اسٹیج اور تھیٹر سے جڑی رہی ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ سماجی انصاف، جنسی برابری اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی بات کی ہے۔ میں ایسے ہی ماحول میں بڑی ہوئی ہوں لیکن آرٹ کا مطلب صرف آواز بلند کرنا ہی نہیں ہوتا ہے۔ کچھ آرٹ ایسے ہوتے ہیں جن کا مقصد صرف تفریح ہوتا ہے اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو معاشرہ و سماج کی برائیوں کو منظر عام پر لانے کے ساتھ ساتھ کئی ایشوز پر دعوت فکر دیتے ہیں۔ فلم، تھیٹر، مصوری، موسیقی اور رقص جیسے فن یا آرٹ اظہارِ خیال کا ذریعہ ہیں جو لوگوں کو سوچنے اور بیداری پیدا کرنے کا کام کرتی ہیں۔ ان فنون یا آرٹ کامعیار کسی پروپیگنڈا، ہنگامہ یا لیف لیٹ کے ذریعہ طے نہیں کیا جا سکتا۔“ نیشنلزم سے متعلق لوگوں کی موجودہ سوچ کے بارے میں بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ”نیشنلزم کو لوگ الگ الگ طریقے سے دیکھتے ہیں۔ لیکن سب سے پہلے سمجھنے والی بات یہ ہے کہ نیشنلزم اور پیٹریوٹزم (حب الوطنی) الگ الگ چیزیں ہیں جو کہ کچھ معاملوں میں یکساں لگتے ہیں۔ لیکن سب سے بری بات یہ ہے کہ نیشنلزم کو کچھ لوگوں نے ’ہائپر نیشنلزم‘ کی شکل میں اختیار کر لیا ہے جو ماحول کو خراب کرنے کا کام کرتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ موجودہ دور میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے بلکہ پہلے بھی اس طرح کی چیزیں سامنے آتی رہی ہیں۔“
’ارتھ‘، ’مرتیو دَنڈ‘ اور ’گاڈ مدر‘ جیسی شاہکار فلموں میں کام کر چکی شبانہ اعظمی نے ملک میں پھیلی عدم رواداری سے متعلق کہا کہ ”یہ ملک الگ الگ تہذیبوں اور ثقافتوں کا مجموعہ ہے اور سبھی کو اپنے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ تنقید کرنا درست ہے، کسی بات پر پوری طرح سے نااتفاقی ظاہر کرنا بھی درست ہے اور احتجاجی مظاہرہ کرنا بھی ٹھیک ہے لیکن یہ قطعی ٹھیک نہیں ہے کہ آپ کسی کو نذر آتش کر دیں، کسی کی پٹائی کریں یا پھر جان سے مار دیں۔ آج دیپیکا پادوکون کو جس طرح کی دھمکیاں مل رہی ہیں اور اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، موجودہ دور میں اس سے بری بات کوئی نہیں ہو سکتی۔“
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 Nov 2017, 8:30 PM