’وہ دل سے بچے اور علم کا خزانہ تھے‘، دلیپ کمار کی پہلی برسی پر جذباتی ہوئیں سائرہ بانو

سائرہ بانو کہتی ہیں ’’میں جانتی ہوں کہ وہ میرے دل میں ہیں، پھر بھی میں ہر صبح اپنی آنکھیں اس غیر یقینی خیال کے ساتھ کھولتی ہوں کہ ایک صبح میں انھیں میرے قریب سوتا پاؤں گی۔‘‘

دلیپ کمار اور سائرہ بانو / تصویر بشکریہ ٹوئٹر @TheDilipKumar
دلیپ کمار اور سائرہ بانو / تصویر بشکریہ ٹوئٹر @TheDilipKumar
user

قومی آواز بیورو

دلیپ کمار کو اس دارِ فانی سے کوچ کیے ایک سال ہو گئے ہیں۔ آج انھیں اور ان کے ذریعہ فلمی پردے پر جیے گئے کرداروں کو ہر کوئی یاد کر رہا ہے۔ دلیپ کمار نے وہ رتبہ حاصل کیا تھا کہ ان کے نام کے آگے لوگ ’کمار‘ سے زیادہ ’صاحب‘ جوڑنا پسند کرتے تھے۔ وہ جہاں بھی جاتے تھے لوگوں کی نظریں احتراماً جھک جایا کرتی تھیں۔ گزشتہ سال 7 جولائی کو جب انھوں نے دنیا کو الوداع کہا تھا تو سبھی کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔ اب ایک سال بعد پھر سے لوگ دلیپ کمار کو یاد کر رہے ہیں اور ان کی خوبیوں کو بیان کر رہے ہیں۔ دلیپ کمار کے انتقال سے غمزدہ تو سبھی ہوئے، لیکن جن پر اس کا سب سے زیادہ اثر ہوا، وہ ان کی شریک حیات سائرہ بانو ہیں۔ گزشتہ ایک سال ان کے لیے بہت بھاری گزرے ہیں اور اس کا اظہار انھوں نے ’ای ٹائمز‘ سے کیا۔

دلیپ کمار کے ساتھ گزرے اپنے اوقات کو یاد کرتے ہوئے سائرہ بانو بہت جذباتی ہو جاتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ ’’پتہ نہیں آپ میں سے کتنے ایسے لوگ اسے پڑھ رہے ہیں، جنھوں نے اس واحد مرد (یا خاتون) کو شریک حیات کی شکل میں پانے کا خواب دیکھا اور ان کے ساتھ کبھی بھلائی نہ جانے والی یادیں، دن اور سال گزارنے کے سب سے لطف بھرے احساسات کا تجربہ کیا ہے۔ اگر آپ ان میں سے ہیں تو آسانی سے اس خالی جگہ اور تنہائی کو محسوس کر پائیں گے اور سمجھ پائیں گے جیسا میں ہر دن اٹھنے پر محسوس کرتی ہوں۔ جس بستر کو پانچ سے زیادہ دہائیوں تک شیئر کیا، اسے اپنی بغل میں خالی پاتی ہوں۔‘‘ سائرہ آگے لکھتی ہیں کہ ’’میں منھ پھیر لیتی ہوں، تکیے سےڈھک لیتی ہوں اور واپس سونے کی کوشش کرتی ہوں... جیسے کہ ایسا کر کے میں پھر سے اپنی آنکھیں کھولوں گی اور انھیں اپنی بغل میں سوتا ہوا پاؤں گی۔ جب سورج کمرے میں دستک دے گا تو ان کے گلابی گال صبح کی شعاعوں میں چمکتے ہوئے دکھائی دیں گے۔‘‘


1966 میں دلیپ کمار کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھنے والی سائرہ بانو گزرے ہوئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھتی ہیں ’’یقیناً میں حقیقت کو جانتی ہوں۔ واحد حقیقت، جسے ہم سبھی کو قبول کرنا ہے۔ جب آپ اپنی زندگی میں سب سے قیمتی لوگوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ میں نے مانا ہے کہ نقصان سے زیادہ یہ اس بات کی دردناک قبولیت ہے کہ آپ خدا کی خواہش کے سامنے مجبور ہیں۔ پروردرگار اس معاملے میں مستثنیٰ نہیں بناتا اور ہمارے پاس پوری انکساری کے ساتھ اس کی خواہش کو منظور کرنے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔‘‘ سائرہ آگے لکھتی ہیں ’’ایسا کہنے کے بعد مجھے یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ میں خود کو بہت خوش قسمتی مانتی ہوں کہ میرے ساتھ میرا یوسف 56 سال یا اس سے زیادہ وقت تک رہا۔ پوری دنیا اب جانتی ہے کہ مجھے 12 سال کی عمر میں اس سے پیار ہو گیا تھا اور میں اس خواب کے ساتھ بڑی ہوئی ہوں کہ میرے دماغ میں یہ خواب بسا ہے کہ وہ تنہا میرے لیے ایکدم درست آدمی ہے۔ جب خواب سچ ہوا تو مجھے پتہ تھا کہ میں ان کی واحد شیدائی نہیں تھی اور میں ان خواتین کی طویل قطار میں کود گئی تھی جو مسز دلیپ کمار بننے کی امید کر رہی تھیں۔ لاتعداد فلمی شیدائی اور اداکار اور ٹیکنیشین اور اسٹوڈنٹس تھے جو انھیں اپنے استاد کی شکل میں دیکھتے تھے۔‘‘

77 سالہ سائرہ بانو لکھتی ہیں ’’میں بہت خوش تھی، لیکن ساتھ ہی مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ وہ مجھ پر پوری توجہ نہیں دینے والے ہیں۔ وہ اپنے کام کے تئیں ذمہ دار اور جنونی تھے۔ ساتھ ہی وہ اپنے بھائی بہنوں کے لیے صرف ایک بھائی ہی نہیں تھے بلکہ ایک والد کے برابر تھے اور ان کے لیے طاقت اور حمایت کے ستون تھے۔ وہ ذاتی زندگی میں باقی اداکاروں سے مختلف تھے۔ ملک کے پہلے سپر اسٹار کی شکل میں انھیں جو عہدہ ملا تھا، اس کے لیے ان کے دل میں زیادہ احترام تھا اور انھوں نے سماجی اسباب کی حمایت کرنا اور اپنے شیدائیوں کے لیے اچھی مثال بننا اپنی ذمہ داری تصور کیا۔‘‘ سائرہ کہتی ہیں کہ وہ اللہ کی شکرگزار ہیں کہ ان کی زندگی میں انھیں اتنا بیش قیمتی تحفہ ملا۔ وہ دل سے ایک بچے کے جیسے آسان تھے اور علم کا خزانہ تھے۔ زندگی میں ایسا کوئی لمحہ نہیں گزرتا جب وہ ان کی آنکھوں کے سامنے نہیں ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اسٹاف ٹی وی آن کر دیتا ہے اور ان کی فلم آ رہی ہوتی ہے یا پھر آڈیو چلا دیتا ہے جس پر ان کا گانا بج رہا ہوتا ہے تو وہ انھیں جوائن نہیں کر پاتی ہیں، کیونکہ وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’میں جانتی ہوں کہ وہ میرے دل میں ہیں۔ پھر بھی میں ہر صبح اپنی آنکھیں اس غیر یقینی خیال کے ساتھ کھولتی ہوں کہ ایک صبح میں انھیں میرے قریب سوتا پاؤں گی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔