گرو دَت، یعنی جذبات سے لبریز آنکھوں کا مالک... حمرا قریشی

جن حالات میں گرو دَت کی موت ہوئی، اس سے متعلق کچھ بھی پڑھنے کو ملتا ہے تو میں اس سے پیچھے نہیں ہٹتی۔ میں نے اس بارے میں ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پڑھی ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

حمرا قریشی

آئندہ 9 جولائی کو گرو دَت کا یومِ پیدائش ہے۔ ان کی گزشتہ کئی سالگرہ کے مواقع پر میں نے صحافی ستیہ سرن کی کتاب ’10 ایئرس وِتھ گرو دَت: ابرار علویز جرنی‘ (گرو دَت کے ساتھ 10 سال: ابرار علوی کا سفر، پینگوئن) پڑھنے کا موقع نکالا۔ یہ کتاب مجھے کئی موسم سرما پیچھے کی طرف لے گئی اور گرو دَت سے متعلق کئی تفصیلات کو سامنے رکھ دیا، ایک باصلاحیت فلمساز اور اداکار... دراصل یہاں پر میں جوڑنا چاہوں گی کہ گرو دَت میں ایک عظیم جینیس دکھائی دیتا تھا۔ ان کی آنکھیں جذبات سے بھری ہوئی تھیں، ان کا شمار ایسے لوگوں میں تھا جو توانائی اور جذبات سے لبریز آنکھوں کے مالک تھے۔

حالانکہ میری گرو دَت سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی، لیکن میں ان کی مداح ضرور ہوں۔ جب بھی میں نے انھیں بڑے پردے پر دیکھا تو ان کی جذبات سے بھری آنکھوں کی طرف ایک کھنچاؤ سا محسوس کیا۔ بلاشبہ ان کی شخصیت کے آس پاس موجود تمام اداسیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا... حتیٰ کہ اسی ماحول میں انھوں نے 39 سال کی عمر میں اپنی زندگی ختم کر لی۔

جن حالات میں گرو دَت کی موت ہوئی، اس سے متعلق کچھ بھی پڑھنے کو ملتا ہے تو میں اس سے پیچھے نہیں ہٹتی۔ میں نے اس بارے میں ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پڑھی ہے۔ میں نے ان پر تیار کی گئی نسرین منی کبیر کی دستاویزی فلم ’اِن سرچ آف گرو دَت‘ (گرو دَت کی تلاش میں) بھی بغور دیکھی تھی۔ دراصل میں المناک انجام کا جواب حاصل کرنا چاہتی تھی، میں جاننا چاہتی تھی کہ گرو دَت نے خود کو کیوں ختم کیا؟ اس المناک انجام سے متعلق ہر ’کیوں‘ کا جواب میں جاننا چاہتی تھی۔ آخر وہ شدید ڈپریشن کے مراحل سے کیوں گزر رہے تھے؟ مشکل وقت میں ان کے خاندان کا کوئی فرد، حتیٰ کہ ان کی ممکنہ معشوق ساتھ میں کیوں نہیں تھی؟ انھیں اس رات تنہا کیوں چھوڑ دیا گیا تھا؟ اس رات جب وہ شدید ڈپریشن میں مبتلا تھے اور انھوں نے خود کو ختم کر لیا، تب وہ تنہا کیوں تھے؟

مذکورہ بالا دستاویزی فلم میں جب وحیدہ رحمن اسکرین پر آئیں تو مجھے یقین تھا کہ وہ ضرور اس رات سے متعلق کچھ کہیں گی، لیکن اس حقیقت کو میں نظر انداز کر گیا کہ وہ تو ایک تجربہ کار اداکارہ ہیں۔ انھوں نے انتہائی سمجھداری کے ساتھ بات کی اور صرف فلموں کے نقطہ نظر سے گفتگو کو آگے بڑھایا۔ انھوں نے کسی بھی ذاتی بات کا تذکرہ نہیں کیا، صرف گرو دَت کی ہدایت کاری میں بننے والی فلموں، کچھ اہم فلموں سے جڑے خاص پہلوؤں پر بات کی۔ ایک طرح سے انھوں نے مصنوعی انداز اختیار کیا جس سے بہت مایوسی ہوئی۔


وحیدہ رحمن کے برعکس گرو دَت کی بہن للیتا لازمی نے اس دستاویزی فلم میں کھل کر اپنی بات رکھی۔ جیسے ہی کیمرہ ان پر مرکوز ہوا تو نظر آیا کہ للیتا کی نظریں فرش پر جمی ہوئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کا بھائی گرو دَت غالباً بہت پریشان تھا، کسی شخصیت سے متاثر تھا، پہلے بھی اس نے خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی اور تب وہ تین دنوں تک کوما میں تھا۔ للیتا لازمی کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب ان کے بھائی کو مردہ حالت میں دیکھا گیا تو ان کا ایک ہاتھ پھیلا ہوا تھا، وہ اس حالت میں تھے جیسے اٹھنا چاہتے ہوں۔

جب کیمرہ گرو دَت کی والدہ کی طرف گھومتا ہے تو وہ لکڑی کے بستر یا پھر تخت پر بیٹھی دکھائی دیتی ہیں۔ انھوں نے حقیقت پسندانہ لہجے میں بات شروع کی اور گرو دَت کی بچپن کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ بہت ضدی تھا... وہ وہی کرتا تھا جس کا جنون اس پر سوار ہوتا۔ کئی بار تو وہ ایسے سوالات پوچھتا کہ مجھے لگتا تھا اس کا جواب دینے میں پاگل ہو جاؤں گی۔‘‘

افسوسناک یہ ہے کہ دستاویزی فلم میں شامل کسی بھی شخصیت نے گرو دَت کے ذریعہ اچانک اٹھائے گئے قدم کی وجہ پر بھرپور روشنی نہیں ڈالی۔ خود کو ختم کر لیا... اپنی جان لے لی... کیوں؟ آخر کس بات کا اشتعال تھا... وہ اتنا پریشان اور خود کو نقصان پہنچانے پر کیوں آمادہ ہوئے تھے؟

بہرحال، گرو دَت کے پسندیدہ اسکرپٹ رائٹر ابرار علوی نے بتایا کہ وہ اس شام (خودکشی سے پہلے) ان کے ساتھ تھے، وہ بہت افسردہ حالت میں تھے۔ ان کی باتوں میں ڈپریشن کا عکس صاف دکھائی دے رہا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں شام تقریباً 6 بجے ان کے گھر پہنچا تھا۔ فلم ’بہاریں پھر بھی آئیں گی‘ کے آخری مناظر پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔ لیکن پتہ چلا کہ وہ شام سے ہی شراب نوشی کر رہے ہیں۔ وہ بات بھی اس طرح کر رہے تھے جیسے بیمار ہوں۔ میں نے اپنا سارا وقت ان کے ذہن سے ڈپریشن کو نکالنے کی کوشش میں لگا دیا، ان بیمار خیالات سے باہر نکالنے میں جو انھیں پریشان کر رہے تھے۔ میں ان کے گھر سے تقریباً 1 بجے رات میں نکلا تھا، مجھے یقین تھا کہ وہ اس ڈپریشن سے نکل آئے ہیں اور ٹھیک ہے۔ لیکن پھر اگلی صبح سنا کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔‘‘


اس دستاویزی فلم میں جانی واکر، راج کھوسلا، مورتی (گرو دَت کے چیف کیمرہ مین) اور یقیناً ابرار علوی سمیت کئی فلمی شخصیات سے گفتگو کی گئی، لیکن صد افسوس کہ کسی نے بھی اس شدید ڈپریشن کی اصل پر توجہ نہیں دی جس نے گرو دَت کو اس المناک انجام تک پہنچایا۔ یہ بتانا اہم ہے کہ تمام تبصرہ نگار اپنی باتوں کے ذریعہ اس ایک نتیجہ پر پہنچے کہ گرو دَت بالی ووڈ انڈسٹری کے لیے کچھ زیادہ حساس، کچھ زیادہ مختلف، اور کچھ زیادہ جذباتی و انسان دوست تھے۔ ایک تبصرہ نگار کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ اگر گرو دَت کبھی جھوٹ بولیں گے تو ان کے کان شرم سے سرخ ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے جذباتی طور پر ایسا حساس شخص فلمی دنیا کے سخت حالات میں کس طرح زندہ رہ سکتا ہے!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔