فلم ریویو... گؤ رکشکوں کی غنڈہ گردی کو بیان کرتی فلم ’اُنماد‘
’اُنماد‘ کسی بھی اصل دھارے کی بالیوڈ فلم سے الگ ہے کیونکہ اس میں کوئی بھی مشہور فنکار نہیں ہے۔ جہاں تک فلم کے ہیرو کا سوال ہے، یہ پردہ سیمیں کے پرکشش اور خوشحال ہیرو سے بالکل الگ ایک کمزور دیہاتی ہے۔
’اُنماد‘ کو دیکھتے ہوئے این ایف ڈی سی والے پرانے دن یاد آ گئے جب سرکاری فنڈنگ نے 80 کی دہائی میں مساوی اور حقیقت پسند فلم کو فروغ دینے کا اہم کام کیا تھا۔ لیکن یہ فلم الگ ہے کیونکہ اسے کچھ یکساں نظریات کے لوگوں مل کر بغیر کسی سرکاری یا دیگر تعاون کے بنایا ہے۔ یہ فلم ’اِپٹا‘ کے جذبے کی بھی یاد دلاتی ہے جب لوگ چندہ اکٹھا کر کے بہت کم بجٹ میں سماجی-سیاسی طور سے اہم ایشوز پر ڈرامہ کیا کرتے تھے۔
’اُنماد‘ کسی بھی اصل دھارے کی ہندی فلم سے الگ ہے کیونکہ اس میں کوئی بھی مشہور فنکار نہیں ہے۔ فلم کا کینوس بہت حقیقی ہے۔ جہاں تک فلم کے ہیرو کا سوال ہے، یہ ہندی فلموں کے پرکشش اور خوشحال ہیرو سے بالکل الگ ایک کمزور دیہاتی ہے۔ کہانی بہت سادہ سی ہے لیکن بالکل زمین سے جڑی ہوئی۔ کردار بھی حقیقت سے قریب جنھیں نبھانے والے تقریباً سبھی اداکار تھیٹر سے جڑے ہیں۔ کچھ مقامات پر تو فلم تقریباً ایک ڈرامے کی طرح لگنے لگتی ہے، خاص طور پر جب گاؤں کے ہندو اور مسلم ایک دوسرے کے سامنے اپنے مذہب کے نعرے لگانے لگتے ہیں، عدالت کے سبھی مناظر میں ڈرامے کا تیور موجود ہے۔
’اُنماد‘ ایک مسلم قصائی کلو کی سادہ سی کہانی ہے جو غالباً مغربی اتر پردیش کے ایک گاؤں میں رہتا ہے۔ غریبی سے نبرد آزما ہوتے ہوئے وہ اپنے ہندو دوست شمبھو کی مدد طلب کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ شمبھو اسے اپنا ایک بیل دیتا ہے اور اسے بازار میں فروخت کر کے پیسے کمانے کی صلاح دیتا ہے۔ کلو اس بیل کو لے کر بازار کی طرف جا ہی رہا ہوتا ہے کہ اسے ایک ہندو لیڈر اور شمبھو کا بھائی شنکر اور اس کے غنڈے گھیر لیتے ہیں۔ شنکر اس علاقے سے ایم ایل اے بننا چاہتا ہے اور اسی لیے مذہبی تشدد پھیلانا چاہتا ہے۔ وہ کلو کو پکڑ کر مارنے لگتا ہے کہ وہ ایک گائے کو پکڑ کر اسے ذبح کرنے کے لیے لے جا رہا ہے۔ معاملہ عدالت تک چلا جاتا ہے۔ اس دوران کلو کہتا رہتا ہے کہ وہ گائے نہیں بیل ہے جسے وہ لے جا رہا تھا اور وہ اسے بازار میں فروخت کرنے جا رہا تھا، مارنے کے لیے نہیں۔ لیکن اس کی بات کوئی نہیں سنتا۔
ایک ’ہندو‘ صحافی بھی ہے جو ایک مسلم لڑکی سے محبت کرتا ہے اور جو آخر کار کلو کی مدد کرتا ہے۔ صحافی کی محبت کے ذریعہ ’لو جہاد‘ کے ایشو کو بھی چھونے کی کوشش کی گئی ہے لیکن لنچنگ اور گئوکشی کا موضوع ہی اتنا اہم ہے کہ لو جہاد کو پوری توجہ نہیں مل پائی، اور یہ ایک طرح سے ٹھیک بھی ہے ورنہ فلم کا فوکس دھندلا جاتا۔
’اُنماد‘ فلم میں ’ملک‘ فلم کی طرح کوئی تقریر بازی نہیں ہے اور نہ ہی اس کا زوردار جواب۔ بغیر کسی میلو ڈرامہ یا تام جھام کے بیف انڈسٹری کے پیچھے کی تجارت اور فرقہ وارانہ سیاست میں پھنسے ایک غریب آدمی کی حالت زار کو حساس طریقے سے دکھایا گیا ہے۔ حالانکہ پوری فلم کے دوران فنڈ کی کمی کا احساس ہوتا رہتا ہے اور فلم ایک ڈرامہ کی طرح چلتی ہوئی زیادہ معلوم ہوتی ہے، لیکن یقیناً اثر کرتی ہے۔
کلّو کے کردار میں امتیاز احمد اپنی چھاپ چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ رگھوویر یادو کی یاد دلا جاتے ہیں۔ ویلن کے کردار میں امت پنڈیر بہت اثردار لگتے ہیں۔ پردیپ کٹاریا نے بدعنوان پولس افسر کے کردار کو بخوبی نبھایا ہے۔ مزید ایک دلچسپ کردار ہے... ہندوتو والے گروپ میں جو لگاتار متھ اور مذہبی کرداروں و افسانوں کی غلط مثال پیش کرتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور کردار ہے جو ہر تھوڑی دیر بعد بھیڑ کو یاد دلاتا رہتا ہے کہ وہ جانور دراصل بیل ہے گائے نہیں۔ یہ چھوٹے کردار اور واقعات دلچسپ ہی نہیں اہم بھی ہیں اور گائے کے نام پر لنچنگ اور پولرائزیشن جیسے سنجیدہ ایشوز پر مبنی فلم کو دلچسپ بنائے رکھتے ہیں۔
فلم کی رفتار کہیں کہیں تھوڑی کمزور پڑ جاتی ہے لیکن عدالت میں کلو کے کیس میں آتے ہوئے مختلف نشیب و فراز دلچسپی کو بنائے رکھتے ہیں۔ ’اُنماد‘ کو بہت ساری وجوہات کی بنا پر دیکھا جانا چاہیے۔ اوّل تو یہ کہ یہ فلم کچھ لوگوں کی حوصلہ افزا کوششوں کا نتیجہ ہے جنھوں نے بغیر کسی بڑے بینر سے مدد لیے یہ فیچر فلم بنائی۔ پھر یہ گائے کے نام پر ہو رہی لنچنگ جیسے اسکرپٹ کو بغیر کسی لاؤڈ ڈائیلاگ یا تشدد کے بخوبی پیش کرتی ہے۔ ہندوستانی سماج میں مختلف طبقات کے درمیان جو گہرا اندرونی رشتہ ہے اسے جذباتی انداز میں پیش کرتی ہے۔
مغربی اتر پردیش کے خشک لینڈ اسکیپ اور وہاں کے گاؤں کی سنسان ناراض سی نظر آتی چھوٹی گلیوں کو خوبصورتی سے فلمانے کے لیے ہدایت کار شہید کبیر کی تعریف ہونی چاہیے۔ عام طور پر کمرشیل ہندی فلم مقامی لینڈ اسکیپ کو نظر انداز کر دیتا ہے جو اپنے آپ میں ایک اہم کردار کے طور پر کہانی کو مزید بااثر بنا سکتا ہے۔ بے شک بطور ہدایت کار شہید کبیر جلد ہی کامیابی کی سیڑھیاں چڑھیں گے۔ لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ یہ کم بجٹ پر بامعنی فلم بنانے کا چلن ہندی فلم میں جاری رہے اور ہم کچھ ایسی فلمیں بھی دیکھ پائیں جو بازار کے دباؤ سے پاک ہوں اور حقیقت کے قریب۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔