فلم ریویو— پردے پر سہل انداز میں بہتی ہوئی فلم ’بیونڈ دی کلاؤڈس‘

یہ حیرت انگیز ہے کہ ایک غیر ملکی ہدایت کار ممبئی کے تاریک جرائم اور غریبی سے بھرے علاقوں کو اتنی اچھی طرح سمجھ کر اسے پردے پر اتار پایا جو نہ صرف حقیقی ہے بلکہ رزمیہ بھی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

پرگتی سکسینہ

ہر ہفتہ کمرشیل فلموں کی ریلیز کے درمیان ایک خوبصورت فلم کا آنا ہندی سنیما میں عام بات نہیں ہے۔ اور جب یہ ماجد مجیدی کی فلم ہو تو ناظرین کا پرجوش ہونا اور فلم سے امیدیں وابستہ کرنا لازمی ہے۔ ’بیونڈ دی کلاؤڈس‘ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کسی بھی امید پر کھرا اترنے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ پردے پر بہت سہل انداز میں بہتی جاتی ہے۔ یہ حیرت انگیز ہے کہ ایک غیر ملکی ہدایت کار ممبئی کے تاریک جرائم اور غریبی سے بھرے علاقوں کو اتنی اچھی طرح سمجھ کر اسے پردے پر اتار پایا جو نہ صرف حقیقی ہے بلکہ رزمیہ بھی ہے، افسوسناک ہے تو ڈرامائی بھی ہے، اس میں مایوسی ہے لیکن ناامیدی نہیں ہے۔

فلم کی کہانی ایک چھوٹے سے ڈرگ ڈیلر عامر کے چاروں طرف گھومتی ہے جس کی بہن تارا کو قتل کرنےکی کوشش کے الزام میں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے جب وہ ایک دھوبی اکشی کی زبردستی سے بچنے کے لیے اسے سنگین طور پر زخمی کر دیتی ہے۔

اب عامر کے پاس ضمانت کے پیسے نہیں ہیں اور تارا کو تبھی جیل سے چھوڑا جا سکتا ہے جب اکشی یہ بیان دے کہ اس کے زخمی ہونے میں تارا کا کوئی قصور نہیں۔ اکشی اتنا زخمی ہے کہ وہ بول نہیں سکتا۔ اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی عامر کو اکشی کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے تاکہ وہ جلدی سے اپنا بیان دے سکے اور تارا کو جیل سے آزادی ملے۔ حالات کچھ ایسے بنتے ہیں کہ عامر اکشی کی فیملی، اس کی بیوی اور دو بچیوں کی دیکھ بھال بھی کرنے لگتا ہے۔

اس دوران تارا کی دوستی جیل کی کوٹھری میں ساتھ رہنے والی قیدی (تنشٹھا چٹرجی) سے ہوتی ہے جو اپنے شوہر کے قتل کے جرم میں عمر قید کاٹ رہی ہے اور موت کے دہانے پر ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کا چھوٹا بیٹا چھوٹو بھی ہے۔ چھوٹو کی پرورش جیل میں ہی ہوئی ہے اور باہری دنیا سے بالکل انجان ہے۔ ماں کی موت کے بعد تارا چھوٹو کی ذمہ لے لیتی ہے۔

فلم کی کہانی پریم چند کی کہانیوں کی طرح کھلتی ہے۔ لوگ اچھے ہیں، برے بھی، وہ دھوکہ دیتے ہیں، پریم کرتے ہیں، نفرت کرتے ہیں، اپنے آس پاس کے لوگوں کا استعمال کرتے ہیں، استعمال ہوتے ہیں، دوستی کرتے ہیں اور بدلہ بھی لیتے ہیں اور سب کی زندگی کے تار ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ انسانی سماج میں موجود دَرد کو بہت خوبصورت سے پردے پر دِکھایا گیا ہے۔

حالات تقریباً دستووسکی کے ناول کی طرح ہیں۔ اکشی کی بیٹی کے لیے عامر کی آنکھوں میں حوس کی چنگاری ہے جو دھیرے دھیرے بدلے کے جذبہ میں تبدیل ہو جاتی ہے اور پھر اسے طوائف خانہ میں فروخت کرے یا نہ کرے، اس کشمکش میں تبدیل ہوتی ہے۔ تارا ویسے تو اپنی خواہش سے پیسے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے جسم کا کاروبار کرتی ہے لیکن جب اکشی اسے اپنی حوس کا شکار بنانا چاہتا ہے تو اسے زخمی کر دیتی ہے۔ یہ فلم تمام یکسر مخالف جذبات میں پھنسے انسانی جدوجہد کی داستان ہے۔

ایک باہری ہدایت کار کے طور پر ماجد مجیدی بہت لازوال طریقے سے اس بات کو سامنے لے کر آئے ہیں کہ کس طرح زبان کے تنوع کے درمیان ہمارے ملک کے لوگوں میں ڈائیلاگ کا ایک عام تار جڑتا ہے۔ ان معنوں میں یہ فلم دراصل ایک اپیل ہے۔

حالانکہ فلم ممبئی شہر پر مبنی ہے لیکن ڈائیلاگ میں مقامی مراٹھی تیور پر اتنی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ ایسا شاید قصداً کیا گیا ہے تاکہ فلم صرف ایک خاص سماج سے پرے بھی لوگوں کو متوجہ کر سکے۔

بہر حال، ممبئی کی گلیوں میں رہنے والی لڑکی کے طور پر مالویکا موہنن (تارا) بہت مہذب اور سادگی بھری لگتی ہیں۔ عامر کے کردار میں ایشان کھٹّر متاثر کرتے ہیں، ڈائیلاگ میں نہیں بلکہ آنکھوں میں جھلکتے غصے، کشمکش اور ایک بچے میں موجود چمک سے وہ اپنے کردار کی ذہنی کشمکش کو اثرانداز طریقے سے پیش کرتے ہیں۔ اکشی کی بیوی کے کردار میں جی وی شاردا کی اداکاری زبردست ہے۔ فلم کو موسیقی دی ہے اے آر رحمن نے، جو اوسط ہے، جب کہ موسیقی بھی فلم میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی تھی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ ڈائیلاگ وِشال بھاردواج نے لکھے ہیں جو بس ایک ضرورت کو پورا کرتے ہیں، لیکن بہت مناسب طریقے سے۔ دراصل فلم میں ڈائیلاگ ہی کم ہیں اور یہی اس فلم کی خوبصورتی ہے۔

یہ فلم مناظر میں بندھی ہوئی ایک نظم ہے۔ ہدایت کار نے ممبئی کے عام مقامات کے کچھ بے حد خوبصورت شاٹس لیے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہدایت کار ممبئی کے ہی ہیں۔ ماجد ’کلوز‘ اور ’مِڈ‘ شاٹس میں ماہر ہیں۔ ہوا میں اڑتے ہوئے کپڑوں اور پردوں کے مناظر کے تئیں گرو دَت کی جو کشش تھی، ماجد میں بھی نظر آتی ہے۔ لائٹ اور شیڈو کے کھیل سے خوبصورت منظر فلم کی رفتار کو بنائے رکھتے ہیں۔

ایک اور پہلو ہے فلم کا جو بہت باریک ہے۔ وہ ہے اس کا نسوانی طور۔ ہیرو کی بہن شوہر کی مار پیٹ سے پریشان ہو کر بھاگتی ہے، پیسے کے لیے جسم کا سودا کرتی ہے اور جب اکشی اس سے زبردستی کرتا ہے تو اسے زخمی کر دیتی ہے، ہیرو ایک طوائف خانہ کے ظالم مالک کو ڈرگس فروخت کرتا ہے جو معصوم لڑکیوں سے جانور جیسا سلوک کرتا ہے، تارا کی جیل کوٹھری میں جو دوست ہے اسے اپنے نشیڑی اور تشدد پسند شوہر کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید ملی ہے، لیکن وہ اپنے ننھے بیٹے پر جان نچھاور کرتی ہے۔ اکشی کی بیوی ایک بالکل اجنبی شہر میں اپنے شوہر کی دیکھ بھال کرنے آتی ہے اور جب اسے پتہ چلتا ہے کہ اکشی نے تارا سے عصمت دری کرنے کی کوشش کی تو وہ ٹوٹ جاتی ہے۔ وہ خاموشی کے ساتھ اکشی کو مار دیتی ہے اور عامر کی مدد سے ایک بار پھر اپنی بکھری زندگی کو سمیٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ تارا حالانکہ جیل میں رہتے رہتے بکھر گئی ہے، لیکن چھوٹو کا سہارا لے کر ایک بار پھر زندگی کو سنبھالتی ہے۔ بہت زیادہ اور بہت صاف کچھ نہ کہتے ہوئے بھی ہدایت کار بہت اثردار طریقے سے اس بات کو سامنے لاتا ہے کہ کس طرح ایک مردوں والے سماج میں خواتین سماج کو سہیجے رکھتی ہیں، لگاتار اس سماج کی زیادتیوں کو سہتے ہوئے، مظالم کو بھول کر آگے بڑھتے ہوئے۔

’بیونڈ دی کلاؤڈس‘ ایک رزمیہ داستان کی طرح ہے، حالانکہ اسے دیکھنے کے لیے صبر کی ضرورت ہے، ٹھیک ویسے ہی جیسے پریم چند کا ناول پڑھنے کے لیے کچھ صبر درکار ہوتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔