فلم ’پاکیزہ‘ کمال امروہوی کا ڈریم پروجیکٹ

کمال امروہوی کے بڑے بھائی نے ان کی شرارتوں سے تنگ آکر انہیں طمانچہ رسیدکردیا۔غصہ سے بپھرے کمال امروہوی گھرچھوڑ کر لاہور بھاگ پڑے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس

user

یو این آئی

کمال امروہوی کانام ذہن میں آتے ہی فلم ’پاکیزہ‘کا خیال ذہن میں ضرور آتا ہے۔حالاں کہ انہوں نے دیگر فلمیں بھی بنائیں لیکن اس شاہکار فلم کے خالق کمال امرہوی کا یہ ڈریم پروجیکٹ تھا۔بہترین ڈائیلاگ‘ موسیقی‘نغمات اورمیناکماری کی بے مثال اداکاری کی بدولت اس فلم نے ناظرین کے دل و دماغ پرایسے نقوش ثبت کئے‘ جنہیں آج تک محو نہیں کیا جاسکا۔

اس کے نغموں میں اس قدر کشش ہے کہ آج بھی جب فلم’پاکیزہ‘ کے نغمے کہیں سنائی دیتے ہیں تو لوگوں کے دل کی دھڑکنیں تھم جاتی ہیں اور لوگ ہمہ تن گوش ہوجاتے ہیں۔ویسے تواس فلم کے سبھی نغمات پسند کئے جاتے ہیں لیکن اس کا ایک گیت ’’موسم ہے عاشقانہ….. اے دل کہیں سے ان کو ایسے میں ڈھونڈ لانا………انتہائی مقبول ہوا۔دل کے ساز چھیڑنے والی موسیقی اور الفاظ کی بندش کے سبب اس فلم نے کامیابی کے ریکارڈ توڑے۔ آج اس فلم انڈسٹری کی کلاسک فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔


’پاکیزہ‘کمال امروہوی کی ڈریم پروجیکٹ فلم تھی جس پر انہوں نے 1958میں کام کرنا شروع کردیاتھا۔ یہ عہد بلیک اینڈ وہائٹ فلموں کا تھا۔ یہ فلم بھی بلیک اینڈ وہائٹ بننے والی تھی۔کچھ عرصہ بعد ہندوستان میں سنیمااسکوپ کا رواج ہوا تو انہوں نے 1961میں سنیما اسکوپ کی شکل میں بنانا شروع کیا۔

کمال امروہوی 17جنوری 1917کو اترپردیش کے امروہہ ضلع میں پیدا ہوئے۔ ان کے فلم انڈسٹری میں داخلہ کا واقعہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔کہاجاتا ہے کہ وہ بچپن میں انتہائی شرارتی تھے اور اپنی شرارتوں سے پورے گاؤں کی ناک میں دم کئے رہتے تھے۔ایک بار ان کی والدہ نے انہیں زبردست پھٹکار لگائی تو انہیں نے اپنی ماں سے وعدہ کیا کہ ایک دن وہ انتہائی مقبول افراد میں شمار کئے جائیں گے اور ان کے دامن کو سونے چاندی کے سکوں سے بھر دیں گے۔اس دوران ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے ان کی زندگی کے رخ کو بدل دیا۔ہوا یوں کہ ان کے بڑے بھائی نے ان کی شرارتوں سے تنگ آکر انہیں طمانچہ رسیدکردیا۔غصہ سے بپھرے کمال امروہوی گھرچھوڑ کر لاہور بھاگ پڑے۔


لاہور نے ان کی زندگی کی سمت ہی بدل دی۔ انہوں نے بڑا آدمی بننے کا عزم کرلیا تھا۔انہوں نے خوب محنت کی اورقدیم لسانیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرلی۔وہ انتہائی ذہین تھے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انہوں نے محض 18سال کی عمر میں ہی ایک اردو اخبار میں کالم نگاری شروع کردی۔ اخبار کے مدیر اُن کی صلاحیتوں کے اس قدر معترف ہوئے کہ اس زمانہ میں انہوں نے 300روپے ان کا مشاہرہ مقرر کردیا۔یہ اس وقت ایک خطیر رقم شمار کی جاتی تھی۔ کچھ دنوں تک اخبار میں کام کرنے کے بعد ان کا دل اس کام سے بھر گیا اور وہ کلکتہ آگئے اوروہاں سے پھربمبئی کا رخ کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔