زمین سے منقطع بالی ووڈ خود بنیاد پرستی کا شکار!

بالی ووڈ میں زندگی کی پیچیدگیاں بھی آسان طریقے سے پیش کی جاتی ہیں، 'پشپا' میں چپل پہننے والے الّو ارجن کا کردار زمین سے جڑا نظر آتا ہے اور جب یہی کام بالی ووڈ کرتا ہے تو کھوکھلا نظر آتا ہے

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

نمرتا جوشی

بالی ووڈ کی ایک اور بڑی فلم باکس آفس پر ناکام ہو گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کرن ملہوترا کی فلم ’شمشیرا‘ شائقین کو مائل نہیں کر سکی لیکن ابھی یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ذات پات کے استحصال جیسے مسئلے کو اٹھانے کی وجہ سے کہ فلم اس مسئلہ پر انصاف نہیں کر سکی۔ تو کیا ہمیں اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ گلاس آدھا بھرا ہوا ہے، یا اس بار پر افسوس کریں کہ گلاس آدھا خالی ہے اور فلم نے ایک ایسی کہانی کا انتخاب کیا جو پسماندہ معاشرے، ناانصافی اور جبر کی بات کرتی ہے؟ تلخ حقیقت یہ یہ ہے کہ ایک صدی سے زیادہ کی تاریخ پر مشتمل مرکزی دھارے کے ہندوستانی سنیما میں ذات پات مخالف بیانیے شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں۔ اب جب کہ وہ اس سمت میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہی ہے تو اسے علاقائی بالخصوص تمل سنیما سے مقابلہ کرنا ہوگا۔

مرکزی دھارے کے سنیما میں سماجی امتیاز کا مسئلہ پہلی بار فرانز اوسٹن کی اچھوت کنیا (1936) میں سامنے آیا۔ یہ ایک برہمن لڑکے اور ایک نچلی ذات کی لڑکی کی محبت کی کہانی ہے۔ 1959 میں بمل رائے نے مہاتما گاندھی سے متاثر ہو کر 'سجاتا' بنائی جس میں نوتن نے برہمن خاندان میں پرورش پانے والی ایک اچھوت لڑکی کا کردار رادا کیا تھا۔ بعد ازاں ذات پات کے ساتھ یہ جدوجہد متوازی سنیما، نئی لہر کے سنیما یا فنی فلموں کے دھارے میں نظر آئی۔ شیام بینیگل کی انکور (1974)، ستیہ جیت رے کی سدگتی (1981)، گوتم گھوش کی پار (1984)، پرکاش جھا کی دامل (1985)، ارون کول کی دیکشا (1991)، شیکھر کپور کی بینڈٹ کوئین (1994)، بینیگل کی سمر (1999) اور 2000 میں ریلیز ہونے والی جبار پٹیل کی دو زبانوں میں آنے والی بابا صاحب امبیڈکر اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔


کچھ نوجوان، آزاد ہدایت کاروں نے بیکاش مشرا کی چورنگا (2014)، چیتنیا تمہانے کی مراٹھی-گجراتی-ہندی-انگلیش کی مخلوط کورٹ (2014) اور نیرج گھایوان کی مسان (2015) میں ذات پات کے اس بیانیے پر بالکل نئے انداز میں پیش کیا گیا۔ آشوتوش گواریکر کی لگان (2001) کے اچھوت کردار کو مرکزی دھارے کے سنیما میں واپسی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جہاں انگریزوں کے خلاف کرکٹ میچ جیتنے والی ٹیم میں لیک سے ہٹ کر اسپن باؤلنگ کرنے والا کچرا ایک اچھوت کردار کے طور پر سامنے آتا ہے لیکن یہاں اس طبقے کی کشمکش یا پسماندہ معاشرے کی جدوجہد جیسی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔

پرکاش جھا 2011 میں 'آرکشن' لے کر آئے لیکن یہ فلم، جو ریزرویشن کے مسئلے پر جدوجہد سے شروع ہوئی تھی، آخر کار تعلیم کے کمرشلائزیشن تک محدود ہو گئی۔ انوبھو سنہا کا آرٹیکل 15 (2019) یقینی طور پر اس مسئلے سے نبردآزما نظر آتی ہے، جس میں شہری، تعلیم یافتہ اور مراعات یافتہ برہمن ہیرو ذات پات کی بنیاد پر امتیاز کا مقابلہ کرتا ہے۔ ابھی ’سونی لیو‘ کی ویب سیریز 'نرمل پاٹھک کی گھر واپسی' میں بھی ذات پات کے امتیاز کی تصویر کشی معاملے کی گہرائی میں جائے بغیر ایک مراعات یافتہ خود ساختہ ہیرو کی کہانی بن کر رہا گئی۔


ہندوستانی سنیما کے مرکزی دھارے میں زندگی کی پیچیدگیوں کو آسان انداز میں پیش کرنے کا رجحان ہے۔ 'شمشیرا' میں یہ بہت سادہ، سطحی اور کسی حد تک مسیحائی (محافظ) کے طور پر ابھرتا ہے۔ اس کا بلند پایہ 'چوٹی دھاری' ہندو ولن، شدھ سنگھ، دائیں بازو والوں کو ناراض کر سکتا ہے لیکن پسماندہ معاشرے کے لیے کچھ نہیں کرتا۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ پروڈیوسر یش راج فلمز نے بھی اسے 'ایکشن، رومانس، ڈرامہ اور تفریح ​​سے بھرپور فلم کے طور پر پیش کر کے ذات پات کے نقطہ نظر سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔

یہی وہ نکتہ ہے جو اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ہندوستانی سنیما ذات پات کا مسئلہ یا ذات پات کی سیاست کی تصویر کشی کے معاملہ میں بنیادی طور پر کہاں غلطی پر ہے۔ اس کا موازنہ جنوب سے کرتے ہوئے گھایوان کہتے ہیں "مرکزی دھارے کا ہندی سنیما زمینی حقائق کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ بالی ووڈ میں زندگی کی پیچیدگیاں بھی آسان طریقے سے پیش کی جاتی ہیں، 'پشپا' میں چپل پہننے والے الّو ارجن کا کردار زمین سے جڑا نظر آتا ہے اور جب یہی کام بالی ووڈ کرتا ہے تو کھوکھلا نظر آتا ہے۔


ساؤتھ میں ستارے نہ تو کسی خول میں رہتے ہیں اور نہ ہی پروان چڑھتے ہیں جبکہ بالی ووڈ ستاروں کی زندگی ایک دائرے کے گرد گھومتی ہے۔ یہ واحد علاقہ ہے جہاں ان کے علاوہ کسی کی رسائی نہیں ہے۔ شاید اسی لیے فلمی تاریخ دان تھیوڈور بھاسکرن کو مرکزی دھارے کے ہندی سنیما اور اس کے کرداروں کو 'بے چہرہ' اور 'جڑوں سے منقطع' قرار دیتے ہیں۔ گھایوان کا خیال ہے کہ بالی ووڈ سنیما عام طور پر گہرائیوں میں جانے کے بجائے 'ٹائٹل کا سینما' زیادہ ہوتا ہے۔ ایک ایسا سنیما جو خود بنیاد پرستی کا شکار ہے۔

فرق اس وقت زیادہ نظر آتا ہے جب ناگراج منجولے کی 'جھنڈ' اسکرین پر آتی ہے۔ منجولے نے مجھ سے 2017 کے ایک انٹرویو میں کہا "ذات ہمارے معاشرے کی جڑوں میں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسے نظر انداز کرنے کے لیے آپ میں خاص صلاحیت ہونی چاہیے۔ بالی ووڈ میں وہ ٹیلنٹ ہے، میرے پاس نہیں۔‘‘ ایک محروم معاشرے سے آنے والے، منجولے کا کوئی بھی کردار ہندی سنیما کے محروم جتنا کمزور نظر نہیں آتا۔ تمام تر مشکلات کے باوجود اعتماد، سویگ اور ایٹی ٹیوڈ سے پر ہے۔ خود دلت برادری سے تعلق رکھنے والے منجولے اپنے کردار کو مضبوط رکھنا پسند کرتے ہیں۔


ماری سلواراج کی 'کرنن' میں نچلے طبقے کی شدید مزاحمت، نیرج گھایوان کی 'گیلی پچی' میں ذات پات، جنس اور جنسیت کے باہمی رشتوں کی باریک اور خوبصورت عکاسی، لینا منیمیکلائی کی 'ماڈتھی' میں بے ساختہ لیکن سفاکیت ہے۔ پا رنجیت کی 'سرپٹا پرمبرائی' اور ٹی کے گیان ویل کی 'جئے بھیم' جیسی فلمیں ناظرین کو کسی نہ کسی طریقے سے ان مسائل کے ساتھ مشغول ہونے پر مجبور کرتی ہیں۔ کے رویندرن کی تیلگو فلم 'ہریجن' اور بی وی کارنتھ کی کنڑ فلم 'چومانا ڈوڈی' ذات پات کے معاملے پر جنوبی سنیما کی کلاسکز ہیں لیکن تمل سنیما میں یہ آواز زیادہ بے باک رہی ہے۔

بھاسکرن کے مطابق، ابتدائی تمل سنیما، ہندی سنیما کی طرح گاندھی کے زیر اثر چھوا چھوت کے خلاف زیادہ پرعزم نظر آتا ہے لیکن ان کے بنانے والے اعلیٰ ذاتوں سے تھے۔ مروگاداس کی نندنار (1942) جیسی نام نہاد سنتوں پر مبنی فلم ایک دلت زرعی مزدور کے بارے میں تھی جو چدمبرم کے مندر میں جا کر عبادت کرنا چاہتا ہے۔ پچاس کی دہائی میں ڈی ایم کے کی طرف سے تیار اور محفوظ کی گئی، فلم ذات پات کے نظام کا مذاق اڑاتی ہے۔ بھاسکرن کہتے ہیں ’’پیریار اور دراوڑ سیاست کی میراث کا یہ اثر ہے کہ تمل سنیما میں ذات پات کے مسائل بہت اچھی طرح سے منسلک یں۔‘‘


تاہم، اب بھی جس چیز کی کمی ہے وہ عورت کا نقطہ نظر ہے۔ لینا منیمیکلائی نے اکثر ذات پات کے معاملے پر فلمیں بنانے والی خواتین فلم سازوں کی کمی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ذات پات کی سیاست سے وابستہ خواتین پر مبنی کہانیوں کو مضبوط بنیاد تلاش کی جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔