بلیک میل: اپنی کمزوریوں کے باوجود قابل دید..... (فلم ریویو)
فلم ’بلیک میل‘ ہندوستان کے ہندی بیلٹ میں موجود کامیڈی، طنز اور انسانی رشتوں کی افسوسناک پیچیدگیوں کا بہترین مجموعہ ہے۔ اس فلم کی خوبی اس کا مضبوط اختتام ہے جو متاثر کرتا ہے۔
عرفان خان کو پردے پر دیکھنا ہمیشہ ہی ایک خوشنما تجربہ رہا ہے۔ لیکن فلم ’بلیک میل‘اسکرپٹ رائٹر (پرویز شیخ) اور ڈائیلاگ رائٹر (پردھومن سنگھ مال) کی فلم ہے اور عرفان کی بہترین اداکاری کہانی کے تمام پہلوؤں کو خوش اسلوبی کے ساتھ سامنے لاتی ہے۔
ہندی سنیما میں بلیک کامیڈی جیسے فن کو کبھی زیادہ ناظرین نہیں ملے۔ حالانکہ ’جانے بھی دو یارو‘ جیسی بہترین فلمیں بنی ہیں لیکن ریلیز کے وقت’جانے بھی دو یارو‘ نے بھی باکس آفس پر اچھا کاروبار نہیں کیا تھا۔ کچھ سال پہلے ہدایت کار ابھینو دیو نے ہی ’ڈیلی بیلی‘ بنائی تھی۔ اس فلم نے باکس آفس پر تو اچھی کمائی کی تھی لیکن اپنے ذو معنی ڈائیلاگ اور فحاشی کے لیے فلم کی بہت تنقید بھی ہوئی تھی۔
لیکن ’بلیک میل‘ ہندی بیلٹ کی سنجیدگی، کامیڈی، طنز اور انسانی رشتوں کی افسوسناک پیچیدگیوں کا بہترین مجموعہ ہے۔ ایک مڈل کلاس نوجوان (دیو) حالانکہ دوسروں کی بیویوں کی تصویریں چراتا ہے اور ان کے بارے میں فینٹاسائز کرتا ہے، لیکن اپنی بیوی کو بھی امپریس کرنا چاہتا ہے۔ لیکن جب وہ اپنی بیوی (رینا) کو کسی دوسرے مرد کے ساتھ دیکھتا ہے تو اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور وہ انتقام لینے کا ایک نایاب طریقہ ڈھونڈتا ہے، یعنی اپنی بیوی کے بوائے فرینڈ کو بلیک میل کرنے کا طریقہ۔ اور اس بلیک میل سے شروع ہوتا ہے ایسے واقعات کا سلسلہ جو مضحکہ خیز ہیں، افسوسناک ہیں، مایوس کن بھی ہیں اور طنز آمیز بھی۔
فلم ’تھری ایڈیٹس‘ کے بعد اومی ویدیہ نے ایک بار پھر اس فلم کے ساتھ پردے پر واپسی کی ہے اور ٹائلٹ پیپر بنانے اور بیچنے والی کمپنی کے ’امریکہ ریٹرن‘، خود میں کھوئے رہنے والے مالک ڈی کے (یاد ہے نہ ڈیلی بیلی کا گانا ’بھاگ ڈی کے بوس بھاگ...‘؟) کے کردار میں وہ کھرے اترے ہیں۔ اس فلم میں ہدایت کار ابھینو دیو کی پچھلی فلم ’ڈیلی بیلی‘ کے کچھ شیڈس بھی نظر آتے ہیں۔ ’ڈیلی بیلی‘ کی طرح ہی یہ فلم بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ سماج میں بہت آسانی سے متعارف ہونے والے انسانی رشتے بھی اتنے آسان اور سہل نہیں ہوتے۔
رینا کے بے وقوف لیکن لمبے چوڑے بوائے فرینڈ کے طور پر ارونودے سنگھ اچھے لگے ہیں لیکن ارونودے اسکرین پر جتنے اثرانداز لگتے ہیں اس لحاظ سے انھیں انٹینس اور پیچیدہ کردار کرنے چاہئیں۔ ہیرو کے آفس فرینڈ معاون کے کردار میں انوجا ساٹھے متاثر کرتی ہیں۔ جس تیزی سے وہ ایک انگریزی بولنے والی ایماندار آفس فرینڈ سے مراٹھی بولنے والی تیز طرار لڑکی میں تبدیل ہوتی ہیں، وہ زبردست ہے۔
جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے، فلم کے تقریباً سبھی کردار ایک دوسرے کو بلیک میل کرنے پر آمادہ نظر آنے لگتے ہیں۔ اس فلم پر بھی ہالی ووڈ کے کوئن برادرس کا زوردار اثر دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ غیر اخلاقیات، بے وفائی اور اچانک پیدا ہوئے صورت حال کے چاروں طرف گھومتی کامیڈی کی ہندی فلموں میں خاص جگہ نہیں رہی ہے۔
اُرمیلا ماتونڈکر کا آئٹم سانگ اور رنجیت کی نشے میں دھُت بیوی کے کردار میں دِویا دتہ بھی تعریف کے قابل ہیں۔ لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں اداکاراؤں کی قابلیت کا پورا استعمال نہیں ہوا ہے۔ اپنے چھوٹے سے ڈانس سیکوئنس میں بھی اُرملا آج کی آئٹم سانگ کرنے والی اداکاراؤں کو چیلنج پیش کرتی نظر آتی ہیں۔
ایک ایسی فلم جو اداکار کی بیوی کی بے وفائی کے چاروں طرف گھومتی ہے، اس میں ہیرو کی بیوی کا کردار ہی کمزور ہے۔ وہ محض ایسی لڑکی کے طور پر نظر آتی ہے جس کی ایک ایسے شخص سے شادی ہو جاتی ہے جس سے وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ بس۔
کبھی کبھی فلم کی رفتار بھی دھیمی ہو جاتی ہے اور امت ترویدی کی موسیقی بھی اب ایک جیسی ہی ہو گئی ہے۔ ابھینو دیو کی فلموں کے نغمے اکثر دوہرے مطلب لیے ہوتے ہیں اور کہیں کہیں فحش بھی۔ ’دے دے‘، ’لے لے‘، ’پھٹ گئی‘ قسم کے لفظ سنتے ہوئے یہ یقین نہیں ہوتا کہ کبھی ہماری فلم انڈسٹری میں ساحر، مجروح اور کیفی اعظمی جیسے نغمہ نگار بھی ہوا کرتے تھے۔ ’بلیک میل‘ کا سب سے مضبوط پوائنٹ ہے اس کا اختتام اور سب سے کمزور بات ہے اس کے نغمے اور خاتون کرداروں کی بناوٹ، جو تقریباً خاتون مخالف محسوس ہوتی ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود فلم مزیدار ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 06 Apr 2018, 9:20 PM