دلوں میں حب الوطنی کا جذبہ بھر دینے والے نغمہ نگار پردیپ... یوم پیدائش پر خصوصی پیشکش

’اے میرے وطن کے لوگو ‘ نغمہ سے کون ہندوستانی ناواقف ہو سکتا ہے۔ اس یادگار نغمہ کو لکھنے والے پردیپ تھے۔ 1962 میں لکھے گئے اس نغمہ کو آج بھی ہندوستان کے عظیم محب وطن گیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

ممبئی : یوں تو ہندوستانی سنیما کی دنیا میں بہادروں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اب تک نہ جانے کتنے گیتوں کی تخلیق ہوچکی ہے لیکن ’اے میرے وطن کے لوگوں، ذرا آنکھ میں بھر لو پانی، جو شہید ہوئے ہیں ان کی، ذرا یاد کرو قربانی‘ جیسےگیت لکھنے والے وطن پرست رام چندر دویدی عرف پردیپ کے اس گیت کی بات ہی کچھ خاص ہے۔

سال 1962 میں جب ہندوستان اور چین کی جنگ اپنے عروج پر تھی تب شاعر پردیپ 'پرم ویر میجر شیطان سنگھ' کی بہادری اور قربانی سے کافی متاثر ہوئے اور ملک کے بہادروں کو خراج عقیدت دینے کے لیے انہوں نے اے میرے وطن کے لوگوں، ذرا یاد کرو قربانی گانا لکھا۔ سری رام چندر کی موسیقی سے سجے اس گیت کو سن کر اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے تھے۔ اے میرے وطن کے لوگوں آج بھی ہندوستان کے عظیم محب وطن گیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

چھ فروری، 1915کو متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے پردیپ کوبچپن سے ہی ہندی شاعری لکھنے کا ایک جذبہ تھا، سال 1939 میں لکھنؤ یونیورسٹی سے گریجویشن کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے استاد بننے کی کوشش کی لیکن اسی دوران انہیں ممبئی میں ہو رہے ایک مشاعرے میں حصہ لینے کی دعوت ملی۔

مشاعرے میں ان کے گیتوں کو سن کر بمبئی ٹاکیز اسٹوڈیو کے مالک همانشو رائے کافی متاثر ہوئے اور انہوں نے پردیپ کو اپنے بینر تلے بن رہی فلم 'کنگن' کے گیت لکھنے کی پیشکش کی۔ سال 1939 میں آئی فلم کنگن میں ان کے گیتوں کی کامیابی کے بعد پردیپ بطور نغمہ نگار فلم دنیا میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئے، اس فلم کے لئے لکھے چار گیتوں میں سے، پردیپ نےتین گیتوں کو اپنی آواز دی۔

سال 1940ء میں ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں شاعر پردیپ بھی مہم میں شامل ہو گئے تھے، اور اس کے لئے انہوں نے اپنی نظموں کے ذریعہ بیداری پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

سال 1940 میں گیان مکھرجی کی ہدایت میں انہوں نے فلم 'بندھن' کے لیے بھی گیت لکھا۔ چل چل رے نوجوان .. کی دھن والے نغمہ نے آزادی کے ديوانوں میں ایک نیا جوش بھرنے کا کام کیا، اپنے نغمے کو پردیپ نے غلامی کے خلاف آواز بلند کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔

اس کے بعد پردیپ نے بمبئی ٹاکیز کی ہی فلم نیا سنسار، انجان، پنر ملن، جھولا اور قسمت کے لیے بھی گیت لکھے۔ چالیس کی دہائی میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کی انگریزی حکومت کے خلاف بھارت چھوڑو تحریک اپنے عروج پر تھی۔ سال 1943 میں آئی فلم 'قسمت' میں پردیپ کے لکھے نغمہ آج ہمالیہ کی چوٹی سے پھر ہم نے للکارا ہے جیسے نغمہ نے نہ صرف ہندوستانیوں کو جھنجھوڑا بلکہ وہ انگریزوں کی ترچھی نظر کے بھی شکار ہوئے۔

سال 1975 میں آئی فلم جے سنتوشی ماں کے ایک نغمے نے پھر پردیپ کو شہرت کی بلندیوں پر جا بیٹھے۔ جے سنتوشی ماں کا گیت اس قدر مقبول ہوا کہ کئی شہروں میں اس فلم نے ہندی سنیما کی تاریخ میں سب سے کامیاب فلم مانی جانے والی فلم شعلے کا بھی باکس آفس پر ریکارڈ توڑ دیا۔

پردیپ کو فلمی دنیا میں ان کی اہم خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں سال 1998 میں فلم انڈسٹری کے سب سے بڑے ایوارڈ دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ سال 1961 میں سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ، فلم جرنلسٹ ایوارڈ، امپا ایوارڈ، عظیم اداکار ایوارڈ، راجیو گاندھی ایوارڈ ، سر سنگار ایوارڈ ، سنت گیانیشور ایوارڈ اورنیشنل انٹی گریشن ایوارڈ 1993 میں پردیپ سرفراز کیے گئے۔

اپنے نغموں کے ذریعہ عوام کے دلوں میں حکومت کرنے والے پردیپ 11 دسمبر 1998 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔