نورجہاں: آواز دے کہاں ہے، دنیا میری جواں ہے

ملکہ ترنم کے نام سے مشہور پلے بیک گلوکار اللہ وسائی عرف نور جہاں نے جن گیتوں کو اپنی آواز دی ان کا جادو آج بھی برقرار ہے۔

تصویر سسشل میڈیا
تصویر سسشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

(23 دسمبر: نور جہاں کی برسی کے موقع پر)

21 ستمبر 1926 کو پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے قصورمیں ایک متوسط خاندان میں نور جہاں کی پیدائش ہوئی ۔ نوزائیدہ نور جہاں کے رونے کی آواز کو سن ان کی پھوپھی نے کہا تھا کہ اس بچی کے رونے میں بھی موسیقی کی ہے۔ نور جہاں کے والدین تھیٹر میں کام کیا کرتے تھے۔ گھر میں فلمی ماحول کی وجہ سے نور جہاں کا رجحان بچپن سے ہی موسیقی کی جانب مبذول ہو گیا تھا۔نور جہاں نے پلے بیک گلوکارہ کے طور شناخت بنانے کا فیصلہ کیا۔ نورجہاں کو اداکاری کرنے کا بھی شوق تھا۔ ان کی والدہ نے نور جہاں کے ذہن میں موسیقی کے تئیں بڑھتی دلچسپی کو پہچان لیا تھا۔ اس سمت میں آگے بڑھنے کے لئے ان کی ماں نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور ان کے لیے گھر پر موسیقی کی تعلیم کا انتظام کیا۔

نور جہاں نے اپنی موسیقی کی ابتدائی تعلیم كزان بائي سے اور کلاسیکی موسیقی کی تعلیم استاد غلام محمد اور استاد بڑے غلام علی خان سے حاصل کی تھی۔ سال 1930 میں نور جہاں کو انڈین پکچرس کے بینر تلے بنی ایک خاموش فلم ’ہند کے ستارے‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کے کچھ دیر بعد ان کا کنبہ پنجاب سے کولکتہ آگیا۔ اس دوران انہیں تقریباً 11 خاموش فلموں میں اداکاری کرنے کا موقع ملا۔

سال 1931 تک نور جہاں نے چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر اپنی شناخت بنا لی تھی۔ سال 1932 میں ریلیز ہونے والی فلم ’ششی پنو‘ نور جہاں کے فلمی کیریئر کی پہلی ٹاکی (بولتی) فلم تھی۔ اس دوران نور جہاں نے کوہ نور یونائیٹڈ آرٹسٹ کے بینر تلے بنی کچھ فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ کلکتہ میں ان کی ملاقات فلم ساز پنچولی سے ہوئی۔پنچولی کو نور جہاں میں فلم انڈسٹری کا ایک ابھرتا ہوا ستارہ نظر آیا اور انہوں نے اپنی نئی فلم ’گل ِ بكاولي‘ کے لئے ان کا انتخاب کیا۔ اس فلم کے لیے نور جہاں نے اپنا پہلا گانا ’’سالا جوانيا مانے اورپنجرے دے وچ‘‘ ریکارڈ کرایا۔

تقریباً تین سال تک کلکتہ میں رہنے کے بعد نور جہاں لاہور واپس چلی گئیں۔ وہاں ان کی ملاقات مشہور موسیقار جي اےچشتي سے ہوئی جو اسٹیج پروگراموں میں موسیقی دیا کرتے تھے۔ انہوں نے نور جہاں سے اسٹیج پر گانے گانے کی پیشکش جس کے عوض نور جہاں کو ہر گانے کے لئے ساڑھے سات آنے دیئے گئے۔ ساڑھے سات آنے ان دنوں اچھی خاصی رقم مانی جاتی تھی۔

سال 1939 میں پنچولی کی موسیقی میں بننے والی فلم ’گل بكاولي‘ کی کامیابی کے بعد نور جہاں فلم انڈسٹری کی مشہور شخصیت بن گئیں۔ اس کے بعد سال 1942 میں پنچولی کی ہی فلم ’خاندان‘ کی کامیابی کے بعد نور جہاں اداکارہ کے طور پر فلمی صنعت میں قائم ہو گئیں۔ فلم ’خاندان‘ میں ان پر فلمایا گانا ’’کون سی بدلی میں میرا چاند ہے آجا‘‘ سامعین کے درمیان کافی مقبول ہوا۔ فلم ’خاندان‘کی کامیابی کے بعد نور جہاں نے فلم ڈائریکٹر شوکت حسین سے شادی کر لی اور ممبئی آ گئیں۔ اس دوران نور جہاں نے شوکت حسین کی ہدایت کاری میں ’نوکر‘، ’جگنو‘ جیسی فلموں میں اداکاری کی۔

نور جہاں اپنی آواز کے ساتھ نئے تجربات کرتی رہتی تھیں۔ اپنی انہیں خصوصیات کی وجہ سے وہ ٹھمری کی ملکہ کہلانے لگیں۔ اس دوران نور جہاں کی ’دوہائی‘، ’دوست‘، اور ’بڑی ماں‘ جیسی کامیاب فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ان فلموں میں ان کی آواز کا جادو سامعین کے سر چڑھ کربولا۔ اس طرح نور جہاں بمبئی فلمی صنعت میں ملکہ ترنم کہلائی جانے لگیں۔

سال 1945 میں نور جہاں کی ایک اور فلم ’زینت‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم کی ایک قوالی ’’آہیں نہ بھریں شکوے نہ کئے، کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا‘‘ سامعین میں کافی مقبول ہوئی۔ نور جہاں کو سال 1946 میں فلمساز و ہدایت کار محبوب خان کی فلم ’انمول گھڑی‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔عظیم موسیقار نوشاد کی ہدایت میں نور جہاں کا گایا ہوا گیت ’’آواز دے کہاں ہیں‘‘، ’’آجا میری برباد محبت کے سہارے‘‘‘، ’’جواں ہے محبت‘ کافی مقبول ہوئے جن کا جادو آج بھی برقرار ہے۔

سال 1947 میں تقسیم ہند کے بعد نور جہاں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا۔ فلم اداکار دلیپ کمار نے جب نور جہاں سے ہندوستان میں ہی رہنے کے لئے کہا تو نور جہاں نے کہا تھا کہ ’’میں جہاں پیدا ہوئی ہوں، وہیں جاؤں گی‘‘۔ پاکستان جانے کے بعد بھی نور جہاں نے فلموں میں کام جاری رکھا۔تقریباً تین سال تک پاکستان فلمی صنعت میں خود کو قائم کرنے کے بعد نور جہاں نے فلم ’چین وے‘ کی فلمسازی اور ہدایت کاری کی۔ اس فلم نے باکس آفس پر اچھی کمائی کی۔ اس کے بعد سال 1952 میں آئی فلم ’دوپٹہ‘ نے فلم ’چین وے‘ کے باكس آفس ریکارڈ کو بھی توڑ دیا۔

فلم دوپٹہ میں نور جہاں کی آواز سے آراستہ نغمے سامعین کے درمیان اس قدر مقبول ہوئے کہ نہ صرف اس نے پاکستان میں بلکہ ہندوستان میں بھی دھوم مچادی۔ آل انڈیا ریڈیو سے لے کر ریڈیو سلون پر نور جہاں کی آواز کا جادو سامعین پر چھایا رہا۔

سال 1963 میں نور جہاں نے فلموں میں اداکاری کو الوداع کہہ دیا۔ سال 1966 میں نور جہاں پاکستان حکومت کی طرف سے تمغۂ امتیاز اعزاز سے نوازی گئیں۔ سال 1982 میں انڈیا ٹاكي کے گولڈن جوبلی تقریبات میں نور جہاں کو ہندوستان آنے کی دعوت ملی۔ اس وقت معین کے مطالبے پر نور جہاں نے ’’آواز دے کہاں ہے ،دنیا میری جواں ہے‘‘ نغمہ پیش کیا اور ان کی آواز کے اس درد کو وہاں موجود ہر دل نے محسوس کیا۔

سال 1996 میں نور جہاں موسیقی کی دنیا سے بھی جدا ہو گئیں۔ سال 1996 میں ریلیز ایک پنجابی فلم ’سخی بادشاہ‘ میں نور جہاں نے اپنا آخری نغمہ ’’کہ دم دا بھروسہ‘‘ گایا۔ نور جہاں نے اپنے فلمی کیریئر میں ہزاروں گانے گائے۔ہندی فلموں کے علاوہ نور جہاں نے پنجابی، اردو اور سندھی فلموں میں بھی اپنی آواز سے سامعین کو مسحور کیا۔ اپنی دلکش آواز اور اداؤں سے سب کو دیوانہ بنانے والی نور جہاں 23 دسمبر 2000 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔