آشا بھوسلے... ایک آواز جس میں درد بھی ہے اور نشہ بھی

آشا نے بہت کچھ برداشت کیا ہے۔ ان کی بیٹی نے خودکشی کی، کینسر ایک بیٹے کو نگل گیا، لیکن اپنے نام کی طرح آشا زندگی کے ہر درد اور جھٹکے کو برداشت کرتی ہوئی آگے بڑھ گئیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

پرگتی سکسینہ

آشا بھوسلے ایک ایسی گلوکارہ رہی ہیں جنھوں نے ہندوستانی فلموں میں موسیقی کا سنہرا دور بھی دیکھا ہے اور مغرب کی نقل کے ساتھ ساتھ شور و غل بھرے فلمی موسیقی اور آج کے آٹو ٹیون، ری مکس اور فیوژن کا دور بھی۔ ان کی آواز ہر دور میں ڈھل گئی اور ہر دور میں کامیاب رہی۔

حالانکہ ہر دور میں ان کی آواز کو ان کی بہن کی آواز کے سامنے تولا جاتا رہا۔ ایک وقت ایسا بھی رہا جب ان میں اتنا حوصلہ ہی نہیں تھا کہ کبھی اپنی خاص پہچان قائم کر پائیں گی۔ آخر وہ لتا منگیشکر جیسی سریلی آواز کے سائے میں جو پل رہی تھیں۔

لیکن وہ اس سحر انگیز آواز کے سائے سے باہر نکلیں اور اپنی ایک الگ اور خاص پہچان بنائی۔ اگر دیکھا جائے تو 85 برس کی آشا تائی دراصل ایک جدید ہندوستانی خاتون کی مثال ہیں۔ ان کی آواز میں جتنی گہرائی، سنجیدگی اور ترنم ہے اتنا ہی نشہ اور شرارت بھی۔ ان کی زندگی بھی ایسے ہی اتار چڑھاؤ سے بھری رہی۔ آشا تائی نے زندگی اپنی شرطوں پر جی ہے چاہے اس کے لیے انھیں کتنی ہی قربانیاں دینی پڑی ہوں۔ 16 سال کی عمر میں اپنی بڑی بہن کے سکریٹری سے گھر والوں کی مرضی کے خلاف شادی کی اور اسے نبھانے کی جی توڑ کوشش بھی کی۔ لیکن ایک بار جب وہ رشتہ ٹوٹ گیا تو انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اپنے تین بچوں کے ساتھ بکھری ہوئی زندگی کے تانے بانے کو جوڑتی ہوئی آشا پھر اٹھ کھڑی ہوئیں اور بطور گلوکارہ اپنی پہچان بنائی۔ ایک بار ان کی بیٹی ورشا نے ان سے پوچھا تھا کہ جب آپ کی بہن اور گھر والے آپ کے ساتھ تھے تو پھر کیوں آپ نے اتنی محنت کی اور اس کی وجہ سے اپنے بچوں کے ساتھ وقت نہیں گزار پائیں؟ آشا کا جواب تھا... ایک بار جب میں نے سوچ لیا کہ کسی کے سہارے زندگی نہیں گزارنی تو پھر گھر والوں کا منھ کیا دیکھنا؟ کسی کی ہمدردی پر رہنا بھی تو میرے بچوں کے لیے نقصان دہ ہی ہوتا۔

آشا کی آواز کی خاصیت کو پہچانا موسیقار او پی نیر نے۔ او پی نیر کی موسیقی اور آشا کی نشیلی آواز نے فلم انڈسٹری کو کئی بہترین گانے دیے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ دونوں میں ایک گہرا جذباتی رشتہ بھی رہا۔ یہ رشتہ موسیقار اور گلوکار کی ایسی تعمیری اور تجرباتی جگل بندی کے لیے لازمی ہی ہے۔ لیکن افسوس، کچھ تلخیوں کی وجہ سے دونوں کا یہ رشتہ کچھ سالوں کے بعد ٹوٹ گیا۔ دونوں نے یہ طے کیا کہ وہ ایک ساتھ کبھی کام نہیں کریں گے۔

پھر آشا اور آر ڈی برمن کی جگل بندی شروع ہو گئی۔ آر ڈی برمن بھی مزاج سے تجربہ کرنے والے تھے۔ تخلیقیت کا مطلب تھا ہمیشہ نئے تجربے کر کے بہترین موسیقی تیار کرنا۔ 70 کی دہائی کا دور بھی ایسا تھا... مغرب میں پاپ موسیقی میں نئے تجربے ہو رہے تھے تو ہندی فلموں کی موسیقی کس طرح پیچھے رہتی۔ آر ڈی برمن کی خاصیت تھی ہندوستانی شاستریہ سنگیت کو مغربی جدید موسیقی میں بہترین طریقے سے ڈھالنا۔ ان کے ایسے تجربات کے لیے آشا کی آواز نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔

آشا اور آر ڈی برمن نے خاندانی مخالفت کے باوجود شادی کی اور زندگی کے کچھ بے حد خوشنما سال ساتھ گزارے۔ 90 کی دہائی آتے آتے اس رشتے میں بھی تلخی آنی شروع ہو گئی اور آخر کار دونوں الگ رہنے لگے۔ لیکن آر ڈی کی اچانک موت نے آشا کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا۔ لیکن آشا اپنے نام کی طرح ایک نئی امید کے ساتھ آگے بڑھیں اور ٹوٹی نہیں۔ میوزک کی دنیا میں اب ان کا نام اتنی ہی عزت سے لیا جانے لگا تھا جتنی عزت سے ان کی بڑی بہن کا لیا جاتا تھا۔

آشا نے بہت کچھ برداشت کیا ہے۔ ان کی بیٹی نے خودکشی کی، کینسر ایک بیٹے کو نگل گیا، لیکن اپنے نام کی طرح آشا زندگی کے ہر درد اور جھٹکے کو برداشت کرتی ہوئی آگے بڑھ گئیں۔ عمر بدلی، دور بدلے، لوگ چھوٹے، ملے، رشتے بنے اور ٹوٹے، لیکن آشا کی سوز بھری آواز کسی سائے کا محتاج ہوئے بغیر آج بھی اپنی ایک الگ سریلی کبھی کھلندڑ تو کبھی سنجیدہ تیور دکھاتی، چھلکاتی ہمارے ساتھ ہے، آس پاس ہے، ایسا جیسے دھیمی دھیمی آواز میں گنگنا رہی ہو... ’اس شمع فروزاں کو/ آندھی سے ڈراتے ہو/ اس شمع فروزاں کے/ پروانے ہزاروں ہیں/ ان آنکھوں کی مستی کے/ مستانے ہزاروں ہیں...‘‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔