کوئی یوں ہی 'بگ بی' نہیں بن جاتا، سخت جدوجہد کی تپش برداشت کرنے کے بعد 'مہانایک' کہلائے امیتابھ

یو این آئی
یو این آئی
user

قومی آواز بیورو

امیتابھ بچن کو اینگری ینگ مین کس نے بنایا؟ اس سلسلے میں سب کی اپنی اپنی کہانی ہے، اور وہ اسے اپنے اپنے انداز میں سناتے ہیں۔ فلمساز و ہدایت کار پرکاش مہرا نے زنجیر کی اسکرپٹ تو اپنے ہاتھوں میں لے لی، لیکن مرد کی بالادستی والی کہانی نے انھیں الجھن میں ڈال دیا۔ دھرمیندر خالی نہیں تھے، ان کے پاس کوئی تاریخ نہیں تھی، راج کمار کسی اور شہر میں تھے، دیوآنند رول کو لے کر بہت مطمئن نہیں تھے۔ تبھی اداکار پران نے انھیں بتایا کہ انھیں 'بامبے ٹو گوا' میں 'اِس' اداکار کو دیکھا ہے اور مہرا یاد کرتے ہیں کہ وہاں انھیں امیتابھ بچن میں 'وجئے' مل گیا۔

فلم کے رائٹر سلیم جاوید کہتے ہیں کہ 'وجئے' صرف اور صرف ان کی تخلیق ہے اور اس لیے مایہ ناز بن گئے اس کردار کا سہرا ان کا ہے۔ اسکرپٹ اور ڈائیلاگ میں شریک رائٹر جاوید اختر اسے الگ طرح سے یاد کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بچن کو وہ کردار بتانے کے لیے تو وہی گئے تھے اور یہ بھی کہ ایک کے بعد ایک فلاپ کے بعد بچن کافی بے حس بھلے تھے، ان فلاپ فلموں میں بھی وہ انھیں اچھے لگے تھے۔

یادداشتیں شخصی ہو سکتی ہیں، لیکن اس میں تو شبہ نہیں کہ زنجیر کے اس ہمیشہ سنگین نظر آنے والے، بدلے کی آگ میں جھلستے پولیس والے کی شکل میں ملی اس اننگ نے نہ صرف امیتابھ بچن، ان کے ساتھ ہندی فلم کی بھی تقدیر بدل کر رکھ دی۔

جاوید اختر ایک انٹرویو میں کہتے ہیں: ان کے جیسی نایاب صلاحیت کو روکا تو جا نہیں سکتا تھا۔ انھوں نے اپنی راہ اِس یا اُس طرح سے تلاش کر ہی لی ہوگی۔ جیسے ایک ندی پہاڑوں، ریگستانوں اور جنگلوں میں بھی اپنی راہ بنا ہی لیتی ہے۔" بچن کو سمجھنے کے لیے یہ مناظر بہت معاون ہیں۔ ہندی سنیما میں اپنے 53 سال کے کیریر میں اگر وہ لگاتار جمے ہی نہیں رہے، اہم بھی بنے ہوئے ہیں تو یہ ان کی اداکارانہ صلاحیت اور بے مثال جنون کا ہی نتیجہ ہے۔


نامنظوری کے بعد اوپر اٹھنا بگ بی کی ہستی کا ایک لازمی سا پہلو رہا۔ وہ مثال تو عام ہے کہ کس طرح آل انڈیا ریڈیو نے انھیں رجیکٹ کر دیا تھا۔ اداکاری میں موقع کی تلاش کے لیے جدوجہد کے دوران انھوں نے کتنی ہی راتیں مرین ڈرائیو کی بنچ پر بتائیں۔ بیشتر ہدایت کاروں کو تو ان کا پورٹ فولیو بھی دوبارہ دیکھنا گوارا نہیں تھا کیونکہ اداکاراؤں کے لیے وہ نوجوان 'بہت لمبا' تھا۔ لوگوں نے ان کی صلاحیت دیکھی، حالانکہ ان کی شروعاتی کچھ فلمیں امیدوں پر کھری نہیں اتریں۔ ایسے تمام قصوں نے بچپن کو ان کی عوامی شخصیت سے پرے جا کر ثبوت فراہم کیا اور ان سے ہم یہ بھی سمجھ پاتے ہیں کہ 6 فٹ 2 انچ کا یہ شخص کس طرح ایک نظریاتی علامت بن گیا۔

امیتابھ بچن کو سب سے پہلے (1969 میں) پردے پر لانے والی شخصیت رائٹر-ڈائریکٹر خواجہ احمد عباس تھے۔ حالانکہ بچن کی آواز اسی سال کے شروع میں مرنال سین کی فلم 'بھون سوم' میں آ چکی تھی۔ نیشنلزم کے جذبہ سے بھری عباس کی کہانی 'سات ہندوستانی' میں امیتابھ پہلی بار نظر آئے جہاں سات ہندوستانی گوا کو پرتگالیوں سے آزاد کرانے کی سازش تیار کرتے ہیں اور امیتابھ اس میں شاعر سے انقلابی بنے ایک نوجوان کی شکل میں دکھائی دیے۔ 'شاعر سے انقلابی' بھی ان کے بعد کے کرداروں کے بیان کی ایک بہترین مثال ہے۔ 1973 تک انھوں نے زیادہ تر مستحکم کردار ہی نبھائے، مثلاً ایک ڈاکٹر (آنند) یا ایک فنکار (پروانہ) کا کردار۔ یہ ایک مسترد، دانشور گھرانے میں پرورش پانے والے اور بعد میں کلکتہ کی ایک فرم میں 1600 روپے ماہانہ کی ملازمت کرنے والے ان کے اصل کردار کی حقیقت کے کافی قریب تھا۔ 1973 کے بعد کا دور ان کے غصے اور رومان کی ادلا بدلی کا تھا۔ 'زنجیر' کے بعد دو دہائیوں میں دیوار، ڈان، کالا پتھر، کالیا، قلی، شہنشاہ، اگنی پتھ وغیرہ میں وہ کسی مقصد کی خاطر انقلابی کرداروں میں نظر آئے ہیں۔

'اینگری ینگ مین' والے انداز نے خاص طور سے مرد ناظرین کو بچن کو دیکھنے کا ایک نیا طریقہ تو دیا ہی، بچن کے ذریعہ سے خود کو دیکھنے کا ایک نیا طریقہ بھی دیا۔ جدوجہد، مہنگائی اور انتقام کے وقت میں یہ سخت محنت کے باوجود استحصال کا سامنا کرنے والے اس مزدور طبقہ کی مایوسی کی آواز بنتا ہے جو انتہائی مشکل حالات میں کام کرتے ہیں۔ یہ بتاتا ہے کہ اگر اوپر اٹھنا ہے تو قانون سے اوپر اٹھنا ہوگا۔ یہاں ایک تیور والا امیتابھ نظر آتا ہے۔ وہ ایک طرح کی مردانگی کو حقیقی شکل دے رہے تھے جسے آج ہم زہریلا، اداکاراؤں کے ارد گرد گھومتے بچن کی شکل میں دیکھتے ہیں تاکہ بچن کا ہیرو چمک سکے۔

بچن نے اس دور کے 'نازک مزاج' ہیرو کی شبیہ کو بھی توڑا۔ ان کے بڑھے ہوئے بال، گھنی موٹی قلمیں اور لمبے پیر قانون سے بھاگنے یا دشمنوں سے بدلا لینے کا بہتر ہتھیار تو بنے ہی، راجیش کھنہ اور ششی کپور جیسے خوبصورت اور چکنے چہروں کے لیے ایک چیلنج بھی تھے۔ ان کے کرداروں کا اپنا ایک الگ انداز تھا جس کی نقل کرنا آسان تھا اور جس کے ساتھ ایک اپنائیت محسوس ہوتی تھی۔ ڈان کے اسٹائل والی بنڈی اور گمچھا، شعلے والی ڈینم (جینس)، شہنشاہ کی زنجیر والی آستین ایک اسٹائل اسٹیٹمنٹ بن گئے۔ یہ بھی پہلی بار ہوا کہ ناظرین ہال سے نکلے تو اپنے ساتھ کچھ پنچ لائنیں بھی لیتے گئے۔ مثلاً 'ڈان کو پکڑنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے'، یا 'آج میرے پاس بنگلہ ہے، گاڑی ہے، بینک بیلنس ہے، تمھارے پاس کیا ہے؟'


یہ 'ریڈیو آواز' کا جادو تھا کہ بچن 'ہیں' لفظ سے ایک پوری زبان پیدا کر جاتے ہیں۔ ان کے تلفظ میں 'ہیں' کے کئی معنی، کئی شکل ہیں۔ یہ 'ہیں' کبھی پوچھ تاچھ (سوالیہ)، کبھی مسکراہٹ، کبھی گدگدی تو کبھی جذباتی اپیل کے طور پر سامنے آتا ہے۔ انھوں نے اس کا استعمال مندر میں شیو (دیوار) تو ایک چرچ میں جیسس سے (امر اکبر انتھونی) سوال پوچھتے ہوئے بخوبی کیا۔ یہ ان کے بولنے کا حیرت انگیز انداز ہی تھا کہ ان کی کامیڈی میں اضافی روانی آ جاتی تھی۔ 'نمک حلال' کا وہ 'انگلش از اے فنی لینگویج' والا مونولاگ ہو یا 'ہم' میں نشے کی حالت میں 'گندی نالی کے کیڑے' والا لمبا ڈائیلاگ، کوئی بھلا کیسے بھول سکتا ہے۔

دوسری طرف ان کی شروعاتی فلمی سفر محتاط اور مستحکم نظر آتی ہے جب ہم رشی کیش مکھرجی کی ہدایت کاری والی مجبوری پر مبنی کامیڈی (چپکے چپکے) اور جذباتی ڈرامہ (آنند، ابھیمان) دیکھتے ہیں، یا پھر یش چوپڑا کی ہدایت کاری والی حیرت انگیز اور گہرے رومانس (کبھی کبھی، سلسلہ) سے گزرتے ہیں۔ پنچ لائنوں کا وہ دور بھی تمام اچھی چیزوں کی طرح کہیں گم ہوا اور ہندی فلم نے انصاف کی چاہت کے بہت زیادہ تجربات سے اسے برباد کر ڈالا۔ 80 کی دہائی میں پھیلے اس گورکھ دھندے کے بعد لوگ پھر سنیما کے اس میٹھے دور کی واپسی کی چاہت کرنے لگے۔ بگ بی کا متبدل اینٹی ہیرو اب اپنے دن گن رہا تھا۔

حالات اور بدتر ہوئے جب بچن اسی دوران نجی زندگی میں کئی مشکلات سے گزرے۔ 1982 میں قلی کے سیٹ پر انھیں جان لیوا چوٹ لگی اور اسی دوران سیاست اور کاروبار میں بھی جھٹکے ملے۔ 1990 کی دہائی کے نصف تک ان کا پروڈکشن اور ایونٹ کمپنی اے بی سی ایل مصیبت میں آ چکی تھی، ان کی فلمی پاری پر بادل چھایا ہوا تھا۔

کیا فرانکوئس ٹروفوٹ نے بچن کو 'وَن مین انڈسٹری' کہا تھا؟ یہ ان چند باتوں میں سے ایک ہے جن کی تصدیق کرنا مشکل ہے، لیکن انھیں دہرانا اچھا لگتا ہے۔ بہرحال، گزشتہ دو دہائی سے تو بچن نے جس طرح سے کام کیا ہے، وہ وَن مین انڈسٹری ہی ہیں۔ انھوں نے جودھا اکبر اور کرش-3 میں نریشن دیا، بورو پلس کریم فروخت کیا، گجرات سیاحت کو ایڈورٹائز کیا اور مختلف مواقع پر عوام سے اپیل کرتے ہوئے دکھائی دیے ہیں۔ انھوں نے دہلی-6 اور 'کہانی' فلموں میں گلوکاری کی اور 'چپ' کے لیے ایک نغمہ بھی لکھا۔ بلاگ اور مائیکروبلاگنگ تو مستقل کر ہی رہے ہیں۔


سپراسٹار کو کوئی نک چڑھا کہے تو کہے، لیکن انھیں 'چاہت' سے اوپر مصروف رہنے کا خصوصی اختیار ملا ہوا ہے۔ یہی بات انھیں عجوبہ، جادوگر اور لال بادشاہ جیسی فلمیں کرنے کے لیے رضامند کرتی ہے، لیکن یہی وہ بھی ہے جس نے انھیں 1990 کی دہائی میں زوال کے بعد پوری طرح برباد ہونے یا منظرنامہ سے غائب ہونے سے بچایا۔ حالانکہ ٹیلی ویژن پر ایک گیم شو کے ساتھ ان کی واپسی کو متنازعہ بھلے کہا گیا لیکن بچن کو اس سے کوئی جھجک نہیں ہوئی اور وہ اس سے کتراتے بھی نہیں نظر آئے۔ ان کی آخری حصولیابی 'کون بنے گا کروڑ پتی' جیسا شو رہا جس نے نہ صرف ان کے کیریر کو نئی زندگی دی بلکہ گزشتہ 22 سالوں سے اسے ایک مستحکم اور مقبول شو بنائے رکھا ہے۔

1970 اور 1980 کی دہائی میں اداکاروں نے جس رفتار سے فلمیں کیں، بچن سنہ 2000 کے بعد سے ہر سال اوسطاً تین فلمیں کر رہے ہیں۔ ایک نئی مثال پیش کرتی بچن کی یہ فلمی رفتار آج کے بڑے فلمسازوں کے لیے ایک نظیر ہے۔ انھیں فیملی کے سربراہ پر مبنی کردار پیش کرنے کی جگہ ہدایت کار جب انھیں الگ ہی شکل میں دیکھ رہے ہیں، ان کے لیے اسٹائلش کردار تلاش ہے ہیں۔ اتفاق نہیں ہے کہ 'پنک' اور 'بدلہ' میں وہ بالکل الگ مزاج والے وکیل کی شکل میں نظر آتے ہیں، جو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی خدمات دے رہا ہے۔ 'پنک' کا وکیل (دیپک سہگل) تو بالکل ہی الگ نظر آتا ہے۔ 'جھنڈ' کا فٹ بال کوچ وجئے برسے اور 'برہماستر' کا وہ قدیم طاقت سے بھرپور مہا گرو تو سب کو یاد ہوگا۔ ان گزشتہ دہائیوں کے سفر کے بعد ہمارا نوجوان جب جنوبی ریاستوں کی مقبول فلموں اور ان کے ہندی ریمیک میں بھی غصیل پنچ لائن دیتا نظر آ رہا ہے، بچن ایک الگ انداز میں بس چکے ہیں، اور یہ انداز ہے 'کول اولڈ جنٹل مین' والا۔

(یہ مضمون رنجیتا گنیشن نے 'نوجیون' کے لیے لکھا، جس کا اردو ترجمہ یہاں پیش کیا گیا ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔