ترک حکام کا سعودی صحافی کے قتل کی ریکارڈنگ موجود ہونے کا دعویٰ

تفتیش کاروں کے مطابق ترک حکام کے پاس ’دستاویزی شواہد‘ موجود ہیں۔ تاہم سعودی عرب نے ایک بار پھر خشوگی کے قتل میں ملوث ہونے کے الزامات مسترد کر دئیے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

انقرہ/ریاض: سعودی نژاد صحافی جمال خشوگی کی گمشدگی پر طرح طرح کی باتیں سامنے آنے لگی ہیں۔دنیا بھر میں اس گمشدگی اور مبینہ قتل سے سعودی عرب کی، ترکی اور امریکہ سمیت دیگر ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ گی۔

بی بی سی کو بتایا گیا ہے کہ ترک حکام کے پاس ایسے آڈیو اور ویڈیو شواہد موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ گمشدہ سعودی صحافی جمال خشوگی کو استنبول میں سعودی قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا ہے۔جمال خشوگی’ واشنگٹن پوسٹ‘ کے کالم نویس ہیں اور وہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے بڑے ناقد رہے ہیں۔ انھیں 2 اکتوبر کو سعودی قونصل خانے کی عمارت میں داخل ہونے کے بعد سے نہیں دیکھا گیا۔

تفتیش کاروں کے مطابق ترک حکام کے پاس ’دستاویزی شواہد‘ موجود ہیں۔ تاہم سعودی عرب نے ایک بار پھر خشوگی کے قتل میں ملوث ہونے کے الزامات رد کر دیئے ہیں۔ سعودی پریس ایجنسی کے مطابق وزیرداخلہ شہزادہ عبدالعزیز بن سعود نے کہا کہ خشوگی کے قتل کا حکم دینے کے الزامات بےبنیاد ہیں اور جھوٹے ہیں۔ جمعہ کو ایک سعودی وفد ترکی پہنچا جو اس کیس پر ترک حکام کے ساتھ مل کر تحقیقات کرے گا۔ اس سے ایک روز قبل ترک صدر کے ترجمان ابراہیم کالین نے کہا تھا کہ خشوگی کی گمشدگی کے بارے میں ایک مشترکہ ورکنگ گروپ بنایا گیا ہے۔

سعودی عرب نے ترک-عرب مشترکہ تحقیقاتی گروپ کے قیام کا خیرمقدم کیا ہے۔ سرکاری خبررساں ادارہ سعودی پریس ایجنسی نے جمعہ کے روز ایک ٹوئٹ میں کہا ’’حکام ترکی کی جانب سے خشوگی کی گمشدگی کی تحقیقات کے لیے سعودی عرب کے ساتھ مشترکہ ماہرین کی ٹیم کے قیام کا خیرمقدم کرتے ہیں۔‘‘ ایک ترک سیکورٹی ذرائع نے بی بی سی عربی سروس کو بتایا کہ اس واقعہ کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ موجود ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ ترک حکام کے علاوہ کسی اور نے بھی یہ ریکارڈنگز دیکھی یا سنی ہیں۔ ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے ذرائع کے حوالہ سے لکھا ہے کہ جمال خشوگی پر تشدد کرتے ہوئے لوگوں کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ریکارڈنگ سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں قتل کرنے کے بعد ان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے۔

ایک اور ذرائع نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو بتایا ’آپ اس آڈیو میں عربی بولتے ہوئے ایک آواز اور آوازیں سن سکتے ہیں۔ آپ سن سکتے ہیں کہ کیسے ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے، تشدد کیا جا رہا ہے اور انھیں قتل کیا گیا ہے۔‘‘

گذشتہ روز سعودی شاہی شخصیت شہزادہ خالد الفیصل کے ترکی کے مختصر دورے پر پہنچنے کی خبر سامنے آئی تھی۔ان کے آنے کی وجہ کے بارے میں یہ معلوم ہوا کہ سعودی شاہی خاندان دونوں ممالک کے درمیان سفارتی بحران کا جلد از جلد حل چاہتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Oct 2018, 10:00 AM