امریکہ بھی اسرائیل کے بڑھتے تکبر سے پریشان : صدر ایردوگان

بائیڈن سے یہ ثابت کرنے کی توقع کی جاتی ہے کہ یہ منصوبہ انتخابی سرمایہ کاری نہیں ہے، بلکہ فلسطین میں قتل عام کے خاتمے کے لیے ایک حقیقی اور مخلصانہ قدم ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

یو این آئی

صدر رجب طیب ایردوگان نے کہا کہ "امریکہ بھی اسرائیل کے بڑھتے تکبر  سے پریشان ہے، اگرچہ امریکی انتظامیہ اس بے چینی کا کھل کر اظہار نہیں کرتی، لیکن امریکی یونیورسٹیوں، سڑکوں، طلباء اور پروفیسروں سے اٹھنے والی آوازیں ظاہر کرتی ہیں کہ وہاں ایک خاص تبدیلی شروع ہو چکی ہے۔"صدر ایردوگان نے اٹلی اور اسپین کے دوروں سے واپسی پر طیارے میں صحافیوں کو بیان دیتے ہوئے ان کےسوالات کے جواب دیئے۔

"غزہ کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے جنگ بندی کے فیصلے پر عمل درآمد "کے بارے اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر مبنی ایک سوال کے جواب میں ایردوگان نے کہا"اگر آپ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے اب تک اٹھائے گئے اقدامات پر توجہ دیں تو امریکہ ہمیشہ سے چوراہا رہا ہے۔ غالباً یہاں پھر وہی ہو گا۔


امریکہ ہمیشہ  اسرائیل کے خلاف لینے و الے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلوں کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر دیتا ہے۔"جنگ بندی کے موجودہ فیصلے کے بارے میں میری تشویش یہ ہے کہ یہ کسی نہ کسی طرح کونسل کو روک دے گا۔ لیکن اس کے باوجود، ہمارے لیے سب سے اہم قدم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بجائے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فیصلے ہیں۔

اسرائیل کو روکنے سے نہ صرف غزہ میں امن یقینی ہو گا بلکہ اقوام متحدہ کے نظام، بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے خلاف اسرائیلی حملوں کو بھی دبایا جا سکے گا۔ جیسا کہ ہم ہمیشہ کہتے ہیں، خطے میں حتمی امن کا راستہ دو ریاستی حل سے گزرتا ہے۔ یہ فارمولا اپنے ساتھ مستقل حل لاتا ہے۔ سلامتی کونسل کے اراکین کی جانب سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے سے خطے میں اچھی فضا قائم ہو سکتی ہے۔


صدر ایردوگان نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا  کہ اسرائیل امریکی صدر بائیڈن کے اعلان کردہ تین مرحلوں پر مشتمل جنگ بندی کے منصوبے کی تعمیل کرے گا۔’’ہم اس بیان سے خوش ہیں۔ لیکن یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کو فلسطین کی طرف کھینچنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ میرا ماننا ہے کہ امریکہ بھی اسرائیل کے بڑھتے ہوئے استکبار سے پریشان ہے، لیکن امریکی انتظامیہ اس کے خلاف کچھ نہیں کر پاتی۔

امریکہ میں قریب آنے والے انتخابات کے ساتھ ماحول میں کافی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ فطری طور پر بائیڈن سے یہ ثابت کرنے کی توقع کی جاتی ہے کہ یہ منصوبہ انتخابی سرمایہ کاری نہیں ہے، بلکہ فلسطین میں قتل عام کے خاتمے کے لیے ایک حقیقی اور مخلصانہ قدم ہے۔ سلامتی کونسل کی قرارداد ایک قدم ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اسرائیل نے کاغذ پر کتنے فیصلوں کو نظر انداز کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ "صڈر بائیڈن کو اب خلوص کے امتحان میں سرخرو ہونا پڑے گا۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔