یروشلم کو فلسطین سے ٹرمپ بھی جدا نہیں کر سکے
یروشلم کے معاملے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل امن معاہدوں کے خلاف جاتے ہوئے یکطرفہ طور پر اپنے حق میں سب کچھ دیکھنا چاہتا ہے اور عملاً فلسطین کے لیے کچھ چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔
امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ جب سے اقتدار میں آئے ہیں ان کی قبل از انتخابات کی لاف زنی گرچہ کسی حد تک کم ہوئی ہے لیکن اسرائیل نوازی کے ان کے جذبے میں خاطر خواہ کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ صہیونی طاقتوں کی حمایت سے انتخابات میں جیت درج کرنے کے بعد انھیں نوازنے اور امریکہ کی دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر انھوں نے 6 اور 7 دسمبر کی شب یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے وہاں منتقل کرنے کا فیصلہ کر دیا۔ اس طرح انھوں نے 21 نومبر 1947 کے اقوام متحدہ کی اس قرار داد کی بھی دھجیاں اڑا دیں جس کی رو سے یروشلم کسی ایک ریاست کا حصہ نہیں۔ ٹرمپ کا یہ فیصلہ 1949 میں پڑوسی ممالک کے ساتھ اسرائیل کے Armistice Agreement کے خلاف بھی تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اسرائیل خود ان معاہدوں پر عمل نہیں کرنا چاہتا جو فلسطین میں قیام امن کے سلسلے میں کئی بار ہو چکے ہیں۔ وہ مختلف معاہدوں کا نفاذ محض فریق ثانی پر دیکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ رہی کہ 1980 میں اس نے اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یروشلم کو اپنا دارالحکومت قرار دے دیا۔ پھر اپنے موقف کی حمایت میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اب اس کی اس کوشش کو صدر ٹرمپ کی نہ صرف پرزور تائید حاصل ہے بلکہ وہ مختلف ممالک کو اس کے لیے جبراً راضی کرنے پر بھی آمادہ ہو گئے۔ انھوں نے اپنے فیصلے کو منوانے کے لیے اس کے اعلان سے قبل مختلف ممالک کے سربراہان سے بات کی اور نہ صرف ان سے اپیل کی بلکہ ان کے فیصلے کے خلاف جانے والے ممالک کو امریکی امداد بند کرنے کی دھمکی بھی دے دی۔ لیکن دنیا میں اب بھی امن پسندوں کی کمی نہیں ہے۔ 19 دسمبر کو سلامتی کونسل میں گرچہ امریکہ نے اپنے اور صہیونی ریاست کے خلاف فیصلے کو ویٹو کر دیا لیکن چار مستقل اور دس غیر مستقل اراکین کے مثبت اقدام نے دنیا کو باور کرا دیا کہ لوگ امریکی صدر کے فیصلے کے خلاف متحد ہیں۔ 21 دسمبر 2017 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تاریخی قرارداد منظور کرتے ہوئے امریکہ سے کہا گیا کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس یا مشرقی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اپنا اعلان واپس لے۔ اہم بات یہ رہی کہ قرارداد کی مخالفت صرف 9 نے کی جب کہ اس کے حق میں 128 ممالک سامنے آئے۔ یہ اور بات رہی کہ 35 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ اس میں ان کی مجبوری بھی شامل حال ہو سکتی ہے۔
اس پورے معاملے میں سب سے تحسین آمیز قدم اپنے ملک کا رہا جس نے امریکہ کے ساتھ اپنے خاص تعلقات کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی پرانی پالیسی پر عمل کیا اور فلسطین کے معاملے میں کسی ثالث کے فیصلے کے تئیں اپنے آپ کو بندھے رہنے سے انکار کر دیا اور فلسطین کے حق میں اپنا ووٹ دیا۔ صرف یہی نہیں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکی اتحادیوں بشمول برطانیہ، فرانس، اٹلی، جاپان اور یوکرین جیسے ملکوں نے بھی ٹرمپ ڈیکلریشن کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
اس پورے معاملے میں مسلم ممالک بالخصوص مصر اور ترکی نے قابل ستائش اقدام کیا۔ سلامتی کونسل میں جس مسودے کو امریکہ نے ویٹو کیا تھا اسے مصر نے پیش کیا تھا جب کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسودہ ترکی اور یمن کی سربراہی میں او آئی سی کی طرف سے پیش کیا گیا۔ اس سلسلے میں عرب اور مسلم ممالک کی درخواست پر ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 193 رکن ممالک کا خصوصی ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکی فیصلے کے خلاف امریکہ، اسرائیل و دیگر ممالک کی طرف سے رد عمل کا سامنے آنا فطری ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل نمائندہ نیکی ہیلی کو یہاں تک کہنا پڑا کہ امریکہ اس دن کو یاد رکھے گا کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں اسے نشانہ بنایا گیا، تاہم انھوں نے امریکی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ امریکہ اپنا سفارتخانہ یروشلم میں ہی بنائے گا اور اس کا موقف درست ہے۔ اسے اقوام متحدہ کے اس فیصلے سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ اسرائیل نے امریکی سفیر کے بیان سے دو قدم اور آگے بڑھتے ہوئے پوری رائے شماری کو ہی جھوٹ کا پلندہ قرار دے دیا اور اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے اس ووٹنگ کو مسترد کر دیا۔ اس طرح امریکہ اور اسرائیل نے ایک بار پھر اس بات کا اشارہ دے دیا ہے کہ بین الاقوامی قوانین، معاہدے، قراردادیں اور فیصلے ان کے لیے نہیں ہیں۔ وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں اور وہ وہی کریں گے جو ان کا دل کہے گا۔ ہاں دیگر ممالک کو اس کے خلاف جاتا نہیں دیکھ سکتے۔ تاہم اب حالات کچھ بدل رہے ہیں۔ دنیا بھر کے امن پسند ممالک ایک بار پھر انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھلے عام امریکی دھمکیوں کی پروا کیے بغیر ایک موقف پر قائم ہیں۔ عرب و مسلم ممالک نے اقوام متحدہ کے اس اقدام کی تعریف کرتے ہوئے اسے تاریخی قرار دیا ہے۔ فلسطین نے اس رائے شماری کے نتائج کو اہل فلسطین کی جیت قرار دیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یروشلم یا القدس اس وقت امت مسلمہ کا سب سے اہم عالمی مسئلہ ہے۔ اس شہر کی مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے نزدیک کافی اہمیت ہے۔ تینوں مذاہب میں یروشلم کو مقدس مقام کا درجہ حاصل ہے۔ اس سرزمین کو انبیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اول یہی ہے۔ یہاں عیسائیوں کا وہ معبد بھی ہے جسے مشرق وسطیٰ کے عیسائیوں میں تقدس کا درجہ حاصل ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ عیسائی خود کو مغرب کے عیسائیوں سے بالکل مختلف مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اپنے تسلط کے دوران مغربی عیسائیوں نے خود مشرقی عیسائیوں کا خون ناحق کیا۔
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ 1918 تک یروشلم میں صرف چند ہزار یہودی آباد تھے۔ بعد میں ان کی آبادی منصوبہ بند طریقے سے بڑھائی گئی۔ یہاں تک کہ برطانیہ اور دیگر مغربی اجارہ داروں کی ایما اور اقدام سے یہاں ایک اسرائیلی ملک کی داغ بیل پڑ گئی اور یہاں کی حقیقی آبادی جو بیشتر مسلمانوں اور عیسائیوں پر مشتمل تھی اسے دبانا اور بھگانا شروع کر دیا گیا اور تمام بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہودی مفادات اور مظالم کو تحفظ فراہم کیا جاتا رہا جو اب بھی جاری ہے۔ لیکن اب صورت حال کچھ تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ گرچہ اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف یہ بین الاقوامی اقدام بھی خاص نتیجہ خیز نہیں ہوگا لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ امریکہ اپنے فیصلے کو مزید موخر کرے گا۔ یروشلم کے معاملے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل امن معاہدوں کے خلاف جاتے ہوئے یکطرفہ طور پر اپنے حق میں سب کچھ دیکھنا چاہتا ہے اور عملاً فلسطین کے لیے کچھ چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے خلاف حماس جیسی تنظیم بھی سامنے آئی اور اس نے بلاشرکت غیرے پورے فلسطینی علاقے کو اپنا اور اسرائیل سے پاک بنانے کے لیے اقدام شروع کر دیا۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ بہت ممکن ہے کہ مستقبل بعید میں دو دو ہاتھ کی نوبت آ جائے اور فیصلہ کسی ایک کے حق میں ہو۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 23 Dec 2017, 1:56 PM