توہین آمیز خاکوں پر ردعمل: عرب دنیا میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ، حواس باخطہ ہوا فرانس
فرانسیسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ اور فرانس کے خلاف احتجاج کی کال بے بنیاد ہے اور اس کو فوری طور پر روکنا چاہیے۔
فرانس کے ایک اسکول میں گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کے قتل اور اس کے نتیجے میں فرانسیسی حکومت کی جانب سے مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنائے جانے کے بعد مسلم ممالک بالخصوص مشرق وسطیٰ میں فرانسیسی برآمدات کے بائیکاٹ کے مطالبات زور پکڑتے جا رہے ہیں۔ ان مطالبات پر فرانسیسی حکومت کی پریشانی اتوار کے روز کھل کر سامنے آ گئی ہے۔
فرانسیسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ اور فرانس کے خلاف احتجاج کی کال بے بنیاد ہے اور اس کو فوری طور پر روکنا چاہیے۔ اتوار کے روز جاری کیے جانے والے اس بیان میں کہا گیا کہ فرانس کے خلاف جاری تمام جارحیت روکی جائے۔ فرانسیسی وزارت خارجہ کے مطابق یہ تمام اقدامات ایک بنیاد پرست اقلیت کے اشاروں پر اٹھائے جا رہے ہیں۔
فرانسیسی حکومت کے مطابق فرانس نے اپنے اتحادی ممالک کو فرانس کا موقف واضح کرنے کے لئے سفارتی ذرائع کی مدد حاصل کی ہے۔ فرانس نے مشرق وسطیٰ کے ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بائیکاٹ کے مطالبات سے خود کو دور کر لیں اور "فرانسیسی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔"
یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب فرانس کے ایک اسکول میں نبی آخر الزمان کے خاکے بنانے پر اظہار آزادی کا تنازع کھڑا ہوا۔ اس اسکول کا ایک استاد قتل ہوا تھا جس کے مشتبہ قاتل کو فرانسیسی صدر عمانوایل ماکروں نے ’’اسلام پسند‘‘ قرار دیا تھا۔ ماکروں نے جنہیں ’’اسلام پسند‘‘ قرار دیا، ان پر بعد میں کڑی تنقید کی اور پھر حضرت محمد ﷺ کے خاکے بنانے کے فعل کا دفاع بھی کیا۔
یہ تمام صورتحال پیرس کے قریب گزشتہ ہفتے ایک استاد کے سر قلم کیے جانے کے واقعے کے بعد سامنے آئی۔ مقتول استاد نے اپنی کلاس میں اظہار آزادی پر بات کرتے ہوئے مسلمانوں کے آخری نبی کے خاکے دکھائے۔ عمانوایل ماکروں نے ایک بیان میں مقتول استاد کو ’’اسلامی دہشت گرد حملے کا شکار‘‘ قرار دیا تھا۔
گزشتہ ہفتے مقتول استاد کے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی صدر نے کہا کہ ’’ہم خاکے بنانا ترک نہیں کریں گے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’وہ (استاد) اس لیے قتل کیا گیا، کہ اسلامسٹ ہمارا مستقبل لینا چاہتے ہیں۔‘‘ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ’’وہ ’اسلامسٹ‘ ایسا کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔‘‘ اس واقعہ نے مذاہب کے احترام سے متعلق بحث چھیڑ دی ہے، جس کے بعد مسلم دنیا کے کئی راہنماؤں نے اس جرم کی مذمت کرتے ہوئے انبیاء کے احترام پر زور دیا ہے۔
خیال رہے کہ کویت کی غیر سرکاری صارفین کوآپریٹو سوسائٹیز کی یونین نے جمعہ کو فرانسیسی اشیاء کے بائیکاٹ کے لیے ایک باضابطہ سرکلر جاری کیا تھا۔ اس یونین میں کویت کی 70 سے زیادہ تنظیمیں شامل ہیں۔ اس کی اپیل پر دکانداروں نے اپنی دکانوں اور سپراسٹورز سے فرانسیسی کمپنیوں کی ساختہ مصنوعات بالخصوص بالوں اور چہرے کے تحفظ اور خوب صورتی کے لیے اشیاء کو شیلفوں سے ہٹا دیا ہے۔
اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی) نے جمعہ کو ایک بیان میں اس فرانسیسی استاد کے بہیمانہ قتل کی مذمت کی ہے لیکن ساتھ ہی اس نے اظہار رائے کی آزادی کے نام پر کسی بھی مذہب کی توہین کے جواز پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ ادھر عرب دنیا کے سب سے بڑے ملک سعودی عرب میں فرانسیسی سپرمارکیٹ ’کارفور‘ کے بائیکاٹ کے لیے ٹویئٹر پر مہم چلائی جا رہی ہے اور گزشتہ روز بائیکاٹ کا ٹرینڈ دوسرے نمبر پر تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔