اماراتی شہزادی نے چلایا ’چابک‘، خلیجی ممالک میں مقیم ’فرقہ پرستوں‘ میں ہاہاکار
دبئی میں مقیم ایک کاروباری سوربھ اپادھیائے نے عرب اور مسلمانوں پر قابل اعتراض تبصرے کیے، جس کا نوٹس لیتے ہوئے امارات کی شہزادی نے ایسا چابک چلایا کہ اب تمام فرقہ پرستوں میں ہاہاکار مچا ہوا ہے
ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف منظم طریقہ سے نفرت کا ماحول پیدا کر کے انہیں نشانہ بنانا اب عام بات ہو چکی ہے لیکن خلیجی ممالک میں رہ کر کاروبار کرنے والے اور وہاں موٹی تنخواہ پر ملازمت کرنے والے انتہا پسندوں کی بیانبازی پر اب نہ صرف نوٹس لیا جا رہا ہے بلکہ ان کے خلاف کارروائی بھی کی جا رہی ہے۔
دراصل ہفتہ بھر پہلے سوربھ اپادھیائے نامی ایک ہندوستانی نژاد نے ٹوئٹر پر عرب اور مسلم مخالف باتیں لکھی تھیں۔ اس کا اسکرین شاٹ متحدہ عرب امارات میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگا۔ سوربھ اپادھیائے کی ٹوئٹر پروفائل کے مطابق (جو اب بند ہو چکی ہے)، وہ ایک پالیٹیکل کمپین منیجر ہے اور اس کی لوکیشن دبئی بتائی گئی تھی۔ سوشل میڈیا پر دبئی کے کئی یوزرس نے پولیس کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ سوربھ مسلم مخالف ایجنڈہ چلا رہا ہے اور قابل اعتراض مواد پوسٹ کر رہا ہے۔
اسی سلسلہ میں یو اے ای میں رہنے والے کئی دیگر ہندوستانیوں کی بھی ٹوئٹر کے ذریعے پولیس سے شکایت کی گئی جو کورونا وائرس پھیلانے کی وجہ مسلمانوں کو بتاکر اپنی بھڑاس نکال رہے تھے۔ سوربھ نے ٹوئٹ کیا تھا، ’’مشرق وسطیٰ کے ممالک جو بھی کچھ ہیں وہ ہم ہندوستانیوں کی وجہ سے ہیں، جس میں 80 فیصد ہندو شامل ہیں۔ ہم نے کوڑے کے ڈھیر سے دبئی جیسے شہروں کو کھڑا کیا ہے اور اس بات کی عزت یہاں کا شاہی خاندان بھی کرتا ہے۔‘‘
اس سے پہلے سوربھ نے لکھا تھا، ’’مسلمان دنیا سے 1400 سال پیچھے جی رہے ہیں۔‘‘ جب کچھ لوگوں نے سوربھ کے ٹوئٹ پر اعتراض ظاہر کیا تو اس نے ان کو بھی چیلنج کر دیا۔ سوربھ اپادھیائے کے ان ٹوئٹ کا نوٹس متحدہ عرب امارات کی شہزادی ہند القاسمی نے لیا اور ایسا ’چابک‘ کہ اب خلیجی ممالک میں رہنے والے تمام فرقہ پرستوں میں ہاہاکار مچا ہوا ہے۔ شہزادی ہند القاسمی نے 16 اپریل کو ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا، ’’متحدہ عرب امارات میں جوبھی نسلی تفریق یا بھید بھاؤ کرتا پایا جائے گا، اس پر جرمانہ عائد ہوگا، ساتھ ہی اسے ملک چھوڑنے کو کہا جائے گا اور یہ رہی ایک مثال۔‘‘
ہند القاسمی نے مزید کہا، ’’شاہی خاندان بے شک ہندوستانی لوگوں کو دوست مانتا ہے لیکن کی بے ادبی کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ یو اے ای میں بہت سے لوگ اپنی روزی روٹی کمانے آئے ہیں، پر اگر اس زمین کو ہی کوسنے لگیں گے، تو یہاں آپ کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ یو اے ای میں 2017 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وہاں 34 لاکھ 20 ہزار سے زیادہ مہاجر ہندوستانی مقیم ہیں۔ یہ تعداد یو اے ای کی آبادی کا تقریباً 27 فیصد ہے۔
سینئر صحافی اجیت انجم کہتے ہیں، ’’یو اے ای میں رہنے والے لاکھوں ہندوستانیوں میں ہندوؤں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اگر خلیجی ممالک میں ایسا ردعمل ہونے لگا تو وہاں کام دھندہ کرنے والے ہندوستانیوں کو کتنی مصیبت جھیلنی پڑے گی۔‘‘
گلف نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق حال ہی میں مشرق وسطی میں نوکری کرنے والے ہندوستانیوں کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے جنہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق شارجہ میں مقیم ایک نامی ہندوستانی کاروباری کو غیر ارادتاً مذہبی جذبات بھڑکانے کے لئے معافی مانگنی پڑی۔ لوگوں نے اس پر ’اسلاموفوبیا‘ پھیلانے کا الزام عائد کیا تھا۔
شہزادی ہند القاسمی نے اس معاملہ کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا، ’’سوشل میڈیا پر مشتعل بیان بازی کرنے کے معاملہ میں کیرالہ کے ایک کاروباری کو تو معاف کر دیا تھا، لیکن ایک دیگر شخص کو جیل کی سزا ہوئی ہے۔‘‘
متحدہ عرب امارات میں اب ان تمام پرانے ٹوئٹز کو ڈھونڈ کر نکالا جا رہا ہے جن میں مسلمانوں یا عرب کے خلاف قابل اعتراض باتیں کی گئی ہیں۔ دبئی کی ایک خاتون تاجر نورا الغریر اور کویت کے سماجی کارکن عبد الرحمن ناصر نے لوک سبھا کے رکن تیجسوی سوریا کے ایک قابل اعتراض ٹوئٹ کو شیئر کیا تھا جو متحدہ عرب امارات میں سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے۔ یہ قابل اعتراض ٹوئٹ پانچ سال پرانا ہے اور بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ تیجسوی سوریا اسے ڈلیٹ کر چکے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر اس کے حوالہ سے حکومت ہند کے نظریہ پر سوال اٹھ رہے ہیں۔
عبد الرحمن ناصر نے لکھا، ’’کویت میں ہندوستانی نژاد طبقہ کے لوگ کورونا انفیکشن کے معاملہ میں سب سے اوپر ہیں لیکن یہاں کے بہترین اسپتالوں میں ان کا علاج چل رہا ہے، کیوںکہ کویت میں مذہب اور شہریت کی بنیاد پر لوگوں میں تفریق کرنے کا رواج نہیں ہے۔‘‘
مشہور سعودی عالم عبیدی زہرانی نے اپیل کی ہے کہ خلیجی ممالک میں کام کرنے والے ان کٹر ہندوؤں کی شناخت کی جائے جو اسلام کے خلاف نفرت بھڑکا رہے ہیں اور انہیں واپس ان کے ملک بھیجا جائے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 22 Apr 2020, 7:00 PM