انسانی حقوق گروپوں نے سعودی عرب میں سزائے موت کو ختم کرنے کا کیا مطالبہ

انسانی حقوق کے کارکنان خاص طور پر منشیات سے متعلق جرائم کے لیے سزائے موت پر عمل درآمد دوبارہ شروع کرنے کے سعودی فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے "انتہائی افسوسناک قدم" قرار دیا۔

سزائے موت، عالمی تصویر یو این آئی
سزائے موت، عالمی تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

واشنگٹن: سعودی عرب میں حالیہ سزائے موت کے بعد اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے اس ملک میں سزائے موت کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان خاص طور پر منشیات سے متعلق جرائم کے لیے سزائے موت پر عمل درآمد دوبارہ شروع کرنے کے سعودی فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے "انتہائی افسوسناک قدم" قرار دیا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دنیا بھر میں موت کی سزا پر پابندی لگانے کے لئے ممالک کے وسیع اتفاق رائے کے کچھ ہی دن بعد ہی منشیاب اور دیگر الزامات پر سزا دینا پھر سے شروع ہوگیا ہے۔

انسانی حقوق کے ہائی کمشنر (یو این) کے دفتر کے ترجمان نے کہا کہ منشیات کے جرائم کے لیے سزائے موت کا نفاذ "بین الاقوامی اصولوں اور معیارات سے مطابقت نہیں رکھتا"۔ سعودی عرب میں 10 نومبر سے اب تک منشیات کے الزام میں 17 افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے، جن میں تین پاکستانی بھی شامل ہیں۔ ان تینوں میں سے منت خان کا بیٹا گلزار خان تھا، جس کی پھانسی کی تصدیق اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کے دفتر نے 22 نومبر کو کی تھی۔ اسے ہیروئن کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔


او ایچ سی ایچ آر ترجمان الزبتھ تھروسل نے کہا کہ سعودی عرب میں اس ماہ کے آغاز سے تقریباً روزانہ سزائے موت دی جا رہی ہے، جب سعودی حکام نے منشیات سے متعلق جرائم کے لیے سزائے موت کے استعمال پر 21 ماہ کی غیر رسمی پابندی ختم کر دی۔ آج تک پھانسی پانے والوں میں تین پاکستانی، چار شامی، تین اردنی اور سات سعودی افراد شامل ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔