اس عید پر غزہ کے یتیم بچوں سےکون ملنے جائے گا، یہ کیسے منائیں گےعید
اب لوگوں کو صرف اس بات کی پرواہ ہے کہ ان کو ان بچوں کو نفسیاتی مدد فراہم کرنی ہے تاکہ وہ جنگ کی پریشانیاں فراموش کر سکیں۔
ایک ایسے وقت میں جب دُنیا بھر کے مسلمان عیدالفطر منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں، رفح کے بچوں کا کہنا ہے کہ ان کی عید کی خوشیاں چھین لی گئی ہیں۔بچوں کے لیے کام کرنے والے اقوامِ متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ غزہ کی بے گھر آبادی میں ایک فیصد بچے ایسے ہیں جو یتیم ہو چکے ہیں یا پھر اب ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں بچا۔اقوامِ متحدہ کے ادارے ’یونیسیف‘ کے مطابق غزہ میں ایسا کوئی کیمپ نہیں جہاں موجود کسی بچے نے اپنے والدین یا دونوں میں سے کسی ایک کو نہ کھویا ہو۔
لیان اور ان کی 18 ماہ کی بہن سِوار اپنے خاندان میں زندہ بچ جانے والے واحد دو فرد ہیں۔ ان کا پورا خاندان غزہ کے الاہلی ہسپتال میں گزشتہ برس اکتوبر میں ہونے والے بم دھماکے میں ہلاک ہو گیا تھا۔ اس رات لیان کے خاندان کے 35 افراد بشمول ان کے پانچ بہن، بھائی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس رات کے بارے میں بات کرتے ہوئے لیان کہتی ہیں کہ ’ہمارے خاندان کو ابھی ہسپتال پہنچے ڈیڑھ گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ ہم پر دو میزائل آ گرے۔ میں سو کر اُٹھی تو میرے خاندان کے ٹکڑے ہو چکے تھے۔‘
غزہ کے ہسپتال پر ہونے والے اس حملے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروہ اسلامک جہاد نے حملے کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا تھا۔لیان اب جنوبی غزہ میں رفح کے علاقے میں اپنی ایک آنٹی اور کزن کے ساتھ ایک جھونپڑی میں مقیم ہیں۔
جنگ سے قبل لیان اپنے والدین کے ساتھ عید پر پہننے کے لیے کپڑے خریدا کرتی تھیں، مقامی علاقوں میں ’مامول‘ کے نام سے مشہور بسکٹ بنایا کرتی تھیں اور خاندانی دعوتوں کا لُطف اُٹھایا کرتی تھیں۔لیان کہتی ہیں کہ اس برس اب کوئی دعوت نہیں ہو گی۔ ’اس عید پر ہم سے ملنے کوئی نہیں آئے گا۔‘
غزہ میں جنگ کے باعث لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں اور پیسوں کی شدید قلت ہے، اس کے باوجود بھی لیان کے 24 سالہ کزن علی ان کی اور ان کی 18 ماہ کی بہن کی دیکھ بھال کر رہے ہیں اور انھیں اپنی استطاعت کے مطابق کپڑے اور کھلونے دِلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔لیان کے کزنز اپنے خاندان کے 43 افراد کے ہمراہ غزہ کے علاقے زیتون میں ایک بلڈنگ میں رہا کرتے تھے اور اب اس خاندان کے زندہ بچ جانے والے افراد جنوبی غزہ میں ایک جھونپڑی میں رہتے ہیں۔
لیان کی طرح ان کے 14 برس کے کزن محمود بھی ان بچوں میں شامل ہیں جنھیں غزہ میں جاری جنگ نے یتیم کردیا ہے۔محمود کے دونوں والدین اور ان کے بہن، بھائی بھی الاہلی ہسپتال پر ہونے والے حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ بم دھماکے میں وہ اس لیے بچ گئے کیونکہ وہ اپنے خاندان کے لیے پانی لینے باہر گئے ہوئے تھے۔وہ اس رات کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جب میں واپس آیا تو میں نے سب کو مردہ پایا۔‘
جنگ شروع ہونے سے قبل محمود ایک باڈی بلڈنگ چیمپیئن بننے کا خواب دیکھ رہے تھے اور مصر میں ہونے والے تن سازی کے ایک عالمی مقابلے کی تیاری کر رہے تھے۔اب ان کا صرف ایک ہی خواب بچا ہے اور وہ ہے شمالی غزہ میں واقع اپنے گھر لوٹنا تاکہ وہ اپنے والدین کی یادیں تازہ کر سکیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’یہ عید بالکل بے مزہ ہو گی۔ ہم سڑکوں کو لائٹوں سے سجایا کرتے تھے لیکن آج ہم شاید ایک رسّی سے اپنی چھونپڑی سجائیں گے۔‘
عام حالات میں عید کے موقع پر پُرتعیش دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور انواع اقسام کے کھانے بنائے جاتے ہیں لیکن جنگی حالات میں غزہ کے بچوں کے پاس صرف ماضی کی یادیں ہی بچی ہیں۔عید کے موقع پر غزہ کے دسترخوانوں پر گوشت سے بنی ڈش ’سوموکیا‘ اور نمکین مچھلی ’فسیخ‘ لازمی سجی ہوتی تھیں لیکن خوشی کے اس تہوار پر بنائے گئے بسکٹ بچوں اور بڑوں کی توجہ کا خاص مرکز ہوا کرتے تھے۔
رفح میں بے گھر افراد کی ایک آبادی میں ایک فلسطینی شخص مجد نصر اور ان کے خاندان کی جھونپڑی میں تقریباً 10 خواتین جمع ہوئی ہیں تاکہ وہ اس عید پر بسکٹ بنا سکیں۔مجد کی عمر 20 برس ہے اور وہ جنگ شروع ہونے سے قبل غزہ کے شمالی علاقے میں رہا کرتے تھے۔ انھوں نے بسکٹ بنوانے کا اہتمام اس لیے کیا تاکہ وہ ’اس آبادی میں رہنے والے بچوں اور ان کے خاندانوں کے لیے عید کی خوشیاں بحال‘ کر سکیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’مامول بسکٹ بنانے کے لیے جن اجزا کا استعمال ہوتا ہے ان کی قیمتیں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں تین سے چار گُنا بڑھ چکی ہیں۔‘یہ نوجوان اس آبادی میں مقیم تقریباً 60 خاندانوں میں کیک بھی تقسیم کر رہے ہیں۔
انتہائی مشکل حالات میں بھی احمد مشتہا اور ان کی ٹیم کی کوشش ہے کہ وہ غزہ کے یتیم بچوں کو کچھ خوشی دے سکیں اور اسی لیے وہ عید کے موقع پر غزہ کے شمالی علاقوں میں موجود آبادیوں میں سرکس دِکھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
احمد مشتہا کہتے ہیں کہ ’ہم بچوں کے چہروں پر خوشیاں لانا چاہتے ہیں تاکہ وہ عید منا سکیں۔‘ اس سرکس کی بنیاد سنہ 2011 میں رکھی گئی تھی اور وہاں بچوں کو شعبدے بازی کے گُر سکھائے جاتے تھے لیکن جہاں یہ کام ہو رہا تھا وہ عمارت جنگ کے دوران تباہ ہو گئی۔
جنگ کی ابتدا سے قبل احمد مشتہا اور ان کی 10 رُکنی ٹیم غزہ کے پارکوں میں یتیم بچوں کے لیے سرکس کا اہتمام کیا کرتی تھی۔اس بار جب کرتب دِکھائے جا رہے ہوں گے اور وہاں موجود جوکر بچوں کو ہنسانے کی کوشش کر رہے ہوں گے تو اس سب کے پسِ منظر میں کھنڈرات ہوں گے۔
احمد مشتہا کہتے ہیں کہ ’جب بھی ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں تو ہم پر خطرات منڈلا رہے ہوتے ہیں، ہم کئی مرتبہ کرشماتی طور پر بچے ہیں اور کئی بار زخمی بھی ہوئے ہیں لیکن اب ہمیں صرف اس بات کی پرواہ ہے کہ ہمیں ان بچوں کو نفسیاتی مدد فراہم کرنی ہے تاکہ وہ جنگ کی پریشانیاں فراموش کر سکیں۔‘ (بشکریہ بی بی سی اردو)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔