حج 2022: فرزندانِ توحید مزدلفہ سے منیٰ پہنچے، رمی جمرات کیا، نمازِ عید ادا کی اور طواف الافاضہ کے لیے مسجد الحرام روانہ ہوئے
حرمین شریفین میں آج صبح 6 بجے کے قریب نماز عید پڑھائی گئی جس میں عازمین حج کی شرکت ہوئی، جنھوں نے رمی جمرات نہیں کیا، وہ نماز کے بعد اس کے لیے آگے بڑھے۔
لاکھوں فرزندانِ توحید کے ذریعہ سعودی عرب میں مناسک حج کی ادائیگی کا سلسلہ جاری ہے۔ آج علی الصبح وقوفِ مزدلفہ کے بعد سبھی منیٰ کے لیے روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر رمی جمرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ کچھ عازمین حج جن کی طبیعت ناساز تھی یا پھر کسی عذر کے سبب مزدلفہ سے درمیانی شب کو ہی منیٰ کے لیے روانہ ہو گئے۔ انھوں نے آج طلوعِ آفتاب کے بعد بڑے جمرہ کی رمی کی اور آج بڑے جمرہ کی رمی کا سلسلہ پورے دن چلے گا۔ رمی کے لیے چار یوم یعنی دسویں، گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں ذی الحجہ مقرر ہے۔ اس درمیان سبھی جمرات کی رمی کی جاتی ہے۔
بہرحال، حرمین شریفین میں آج صبح 6 بجے کے قریب نماز عید پڑھائی گئی جس میں عازمین حج کی شرکت ہوئی۔ جن لوگوں نے رمی جمرات نہیں کیا، وہ نماز کے بعد اس کے لیے آگے بڑھے۔ بعد ازاں حجاج طواف الافاضہ کرنے کے لیے مسجد الحرام کی طرف روانہ ہوں گے۔ طواف الافاضہ سے فارغ ہونے کے بعد حجاج ایک بار پھر منیٰ کی طرف روانہ ہوں گے اور باقی دن گزرایں گے۔
رمی جمار یا رمی جمرات کیا ہے؟
جمرات تین ہیں: (1) جمرہٴ اولیٰ، اس کو ’جمرہٴ صغریٰ‘ بھی کہتے ہیں، منیٰ میں مسجد خیف کے بعد یہ پہلا اور قریب ترین جمرہ ہے۔ (2) جمرہٴ ثانیہ،اس کو جمرہ ’وسطیٰ‘ بھی کہتے ہیں، اس لئے کہ یہ جمرہٴ اولیٰ اور جمرہٴ عقبہ کے درمیان واقع ہے۔ (3) جمرہٴ عقبہ، اس کو جمرہٴ ’کبریٰ‘ بھی کہتے ہیں، یہ مکہ کی طرف منیٰ کا آخری جمرہ ہے۔
دس، گیارہ، بارہ، تیرہ ذی الحجہ کی تاریخ میں پانچ (یااس سے زائد) ہاتھ کی دوری سے ان جمرات پر سات سات کنکریاں پھینکنے کو حج کی اصطلاح میں ’رمی جمار‘ کہتے ہیں۔ (ہدایہ مع فتح القدیر 2/499) اگر کنکریاں جمرات پر نہ پڑیں، اور اس کے قریب تین ہاتھ یا کم از کم ایک ہاتھ کے فاصلہ پر گرجائیں، تو بھی رمی جمرات کے حکم کی تعمیل ہوجائے گی۔ (فتح القدیر2/499)
حکمت رمی:
رمی دراصل ایک یادگاری عبادت ہے، جو شیطانی اور باطل طاقتوں سے اظہارِ نفرت کے لئے، علامتی طور پر اس امت میں باقی رکھا گیا ہے۔ اس حکم کے پیچھے ایک یادگار واقعہ ہے، جس کا ذکر حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں آیا ہے۔ بیہقی میں حضرت ابن عباسؓ کی روایت آئی ہے، فرماتے ہیں کہ ’’جب حضرت ابراہیمؑ حکم الٰہی (بیٹے کی قربانی) کی تعمیل کے لئے چلے تو شیطان جمرہٴ عقبہ کے نزدیک سامنے آیا، تو آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں۔ یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر دوسرے جمرہ کے پاس نظر آیا تو آپ نے دوبارہ اسے سات کنکریاں ماریں۔ یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر تیسرے جمرہ کے پاس سامنے آیا تو آپ نے تیسری بار بھی اسے سات کنکریاں ماریں۔ یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ یہ شیطان کو پتھر مارنے کی کارروائی دراصل حضرت ابراہیمؑ کی اتباع میں ہے۔ (السنن الکبریٰ لابی بکر احمد بن الحسین البیہقی، باب ما جاء فی بدوٴ الرمی 5/153)
گویا رمی جمار امت اسلامیہ کی طرف سے شیطان اور تمام باطل قوتوں کے خلاف اجتماعی نفرت کا علامتی مظاہرہ ہے، جو ہر سال پابندی کے ساتھ انجام دیاجاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام، ملّی اور دینی طور پر ہمارے روحانی باپ ہیں، اور باپ کے خلاف شیطان نے جس فریب کی کوششیں کی تھیں اور بار بار مزاحمت سے بھی باز نہیں آیا تھا تو اس عظیم باپ کے تمام فرزندوں پر لازم کردیا گیا کہ وہ اس شیطانی مزاحمت کا اجتماعی مقابلہ کریں۔ تو جمرات دراصل شیطانی قوتوں کی یادگار ہیں۔ ان ستونوں میں کچھ رکھا ہوا نہیں ہے، اصل یہ مقامات ہیں جہاں اللہ کے دشمن (شیطان) نے اللہ کے دوست (حضرت ابراہیم) کو شکار کرنے کی کوششیں کی تھیں۔
رمی کا وقت:
شریعت نے رمی کے لئے ایک وقت مقرر کیا ہے۔ رمی کے لئے چار یوم مقرر ہیں: 10، 11، 12، 13 ذی الحجہ۔ پہلے دن کو یوم النحر اور بقیہ تین دن کو ’ایام تشریق‘ کہا جاتاہے۔ قرآن کریم میں ہے: (ترجمہ) اور اللہ کا ذکر کرو (بعد رمی) مخصوص دنوں میں جو پہلے دو دنوں میں جلدی کرکے چلا جائے تو کوئی گناہ نہیں، اور جو دیر سے جائے تو کوئی گناہ نہیں۔ اس کے لئے جو تقویٰ اختیار کرے۔ اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ تم اسکے پاس جمع کئے جاؤگے۔ (بقرہ:203)
البتہ ان تمام دنوں کے وظائف میں فرق ہے ، اور اس سلسلہ میں احادیث کے مضامین متنوع وارد ہوئے ہیں، جن کی بنا پر فقہاء کے درمیان بھی بعض چیزوں میں اختلاف رائے واقع ہوا ہے، جس کی مختصر تفصیل پیش کی جارہی ہے۔
رمی بتاریخ 10 ذی الحجہ:
10 ذی الجہ کو باتفاق فقہاء صرف جمرہٴ عقبہ (بڑے جمرہ) کی رمی واجب ہے، اس کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے،اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے، حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ صبح صادق ہی سے اسکا وقت شروع ہوجاتا ہے، اور دوسرے دن کی صبح صادق تک اس کا وقت جواز باقی رہتا ہے، البتہ وقت مسنون طلوع آفتاب کے بعد سے زوال تک ہے، زوال کے بعد سے غروب تک وقت جواز ہے، کوئی کراہت نہیں،اور غروب آفتاب کے بعد سے گیارہ کی صبح صادق تک یا دس کی صبح صادق سے طلوع آفتاب تک کا وقت بھی وقت جواز ہے، مگر کراہت سے خالی نہیں۔ (ہدایہ مع الفتح لابن ہمام 2/511، رد المحتار 3/474)
مگر وقت جواز میں یہ کراہت غیر معذورین کے لئے ہے، اگر کوئی شخص کسی عذر (مرض کمزوری، ازدحام وغیرہ) کی بنا پر غیرمسنون اوقات میں رمی کرے تو کچھ کراہت نہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔